خریدنا حلال ہے لیکن بکنا حرام ہے


کالم کے آغاز میں دوستوں سے عرض کر دوں کہ جذباتی نا ہوا کریں۔ ان سیاستدانوں کی خاطر ایک دوسرے سے جھگڑا نا کیا کریں۔ یہ سب آپس میں دوست ہیں بلکہ رشتہ دار بھی ہیں۔ اپنے مفاد کے لیے کسی کے ساتھ بھی مل جاتے ہیں۔ مختلف ٹاک شوز میں ان کی لڑائیاں دراصل ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہیں۔ ایک موضوع میرے ذہن میں ہے۔ کبھی وقت ملا تو اس پر کالم لکھوں گا کہ کس طرح مختلف خاندان مختلف سیاسی جماعتوں پر قابض ہیں۔ کیسے رشتے داریاں بنا کر اپنے آپ کو ہر ماحول میں فٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لاہور کے ایک با اثر خاندان کو جانتا ہوں، سیاست، وکالت، بیوروکریسی۔ ہر جگہ رشتہ داری ہے اور ایک ہی گھر کے لوگ بلکہ مختلف بھائی مختلف سیاسی جماعتوں میں ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے جہاں ان کا رشتہ دار نا ہو۔ لہٰذا عرض ہے اور گزارش ہے کہ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کی خاطر اپنی رشتے داریاں اور دوستیاں خراب نا کریں۔

دوسری درخواست یہ ہے کہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ سب ایک ہی ہیں۔ ان کے ساتھ رومانس میں مبتلا نا ہوں بلکہ انہیں کارکردگی کی بنیاد پر جانچیں۔ ان کا محاسبہ کریں پھر کہیں جا کر یہ صراط مستقیم پر قائم رہیں گے۔ اگر آپ کو یہ غلط فہمی ہے کہ آپ کا لیڈر اچھا ہے اور وہ ہمیشہ صراط مستقیم پہ قائم رہے گا تو خدارا اس غلط فہمی سے باہر نکل آئیں۔ اپنے لیڈر کے نگہبان آپ ہیں۔ اس کے اچھے فیصلوں کی تعریف کریں اور برے کام پہ کڑی تنقید کریں۔ پھر کہیں جا کر وہ بہتر کارکردگی دکھائے گا۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ جناب عمران خان نے خیبر پختونخواہ سے اپنی پارٹی کے 20 ایم پی ایز کو ہارس ٹریڈنگ کے الزام کے تحت بے نقاب کیا ہے۔ دراصل کچھ عرصہ پہلے سینیٹ کے انتخابات ہوئے تھے۔ ہوتا یوں ہے کہ سینیٹ کے امیدواروں کو صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہیں اور پھر عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس سیاسی جماعت کے اراکین صوبائی اسمبلی اپنے سینیٹ امیدواران کو ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ ووٹنگ خفیہ ہوتی ہے اس لیے بعض ایم پی ایز دوسری جماعتوں کے سینیٹرز کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ یا تو وہ اپنی پارٹی قیادت سے ناراض ہیں یا انھیں اپنی جماعت کا سینیٹ امیدوار پسند نہیں۔ یا پھر وہ دوسری جماعت کے سینیٹ امیدوار سے پیسے پکڑ لیتے ہیں۔

عام زبان میں ایم پی ایز کی بولیاں لگتی ہیں۔ اس سینیٹ الیکشن میں بھی مختلف سینیٹرز نے اپنی جیت کی خاطر دوسری جماعتوں کے ایم پی ایز کو کروڑوں اربوں روپوں میں خریدا۔ ہر جماعت نے دوسری جماعت پہ خرید و فروخت کا الزام لگایا۔ اتنا پیسا استعمال ہوا کہ بعض لوگوں نے مشورہ دیا حکومت پاکستان کو سینیٹ الیکشن کروانے کی بجائے سینیٹ کی سیٹوں کی بولیاں لگا دینی چاہئیں۔ ویسے بھی تو سینیٹرز مختلف ایم پی ایز کو پیسے دے کر سینیٹ سیٹ حاصل کرتے ہیں تو کیوں نا ایسا کر دیا جائے کہ وہ حکومت پاکستان کو پیسے دے کر سینیٹ سیٹ خرید لیں۔ کم از کم پیسا قومی خزانے میں تو جائے گا۔ خیر تحریک انصاف کے ساتھ بھی یوں ہوا کہ کے پی کے میں چند ایم پی ایز نے اپنی جماعت کے سینیٹرز کو ووٹ نہیں دیے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے ہی پنجاب سے امیدوار چوہدری سرور نے مخالف جماعتوں کے ایم پی ایز کے ووٹ بھی حاصل کیے۔ چوہدری سرور کو 44 ووٹ ملے جبکہ تحریک انصاف کے 30 ووٹ بنتے تھے۔ انتخابات ختم ہوئے، خرید و فروخت پر تنقید ہوئی اور بات آگے بڑھ گئی۔ لیکن انصاف کے علمبردار جناب عمران خان نے دعوی کیا کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ہیں۔ انہوں نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا کام سینیٹ انتخابات میں پیسے کے عمل دخل کی انکوائری کرنا تھا۔ اب عمران خان صاحب نے پریس کانفرنس کر کے کمیٹی رپورٹ کی بنیاد پر پختونخواہ کے 20 ایم پی ایز پر الزام لگایا کہ انہوں نے پیسے پکڑے اور اپنا ضمیر بیچا۔ لہٰذا پارٹی میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ اس کے بعد ان کی پریس کانفرنس ختم ہو گئی۔ پنجاب کے چوہدری سرور جنہوں نے دوسری جماعتوں کے ووٹ خرید کر سینیٹ سیٹ حاصل کی، ان کے بارے میں عمران خان صاحب نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ یعنی ان کے نزدیک اپنا ضمیر بیچنا حرام ہے لیکن دوسرے کا ضمیر خریدنا حلال ہے۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ عمران خان کو کیسے پتا چلا کہ یہی وہ 20 لوگ ہیں جنہوں نے پیسے لیے ہیں تو جواب یہ ہے کہ جناب یہ کوئی عمل تطہیر نہیں ہے۔ دراصل یہ 20 ایم پی ایز وہ لوگ ہیں جو پہلے ہی فارورڈ بلاک بنا کے بیٹھے تھے۔ اگست 2017 میں اس بلاک کی میٹنگز کا آغاز ہوا تھا۔ ان میں سے فیصل زمان قریشی سمیت کچھ لوگ وہ ہیں جو کافی دیر سے وزیر اعلی پرویز خٹک اور گنڈا پور کے خلاف کرپشن کے الزامات لگا چکے ہیں اور وہ بارہا جناب چیئرمین سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ پرویز خٹک کے اوپر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کروائی جائیں۔ 11 سے زید ایم پی ایز وہ ہیں جو پرویز خٹک سے تنگ آ کر دوسری جماعتوں میں جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ تو جناب خان صاحب، ان کی بات سننے کی بجائے آپ نے ان کو ہی بلیک میل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پارٹی کو شدید نقصان ہو گا۔ کیونکہ اگر آپ واقعی سچے ہوں اور ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ہوں تو پھر سوال یہ ہے کہ حضور پنجاب سے دوسروں کے ضمیر خریدنے والے چوہدری سرور کو کب نکالا جائے گا۔ ؟ سپریم کورٹ سے نا اہل قرار پانے والے جہانگیر ترین کب پارٹی سے بے دخل ہوں گے؟ ٹکٹ کا حقدار تو ان کا بیٹا ہی قرار پاتا ہے۔ آخر کیوں؟

اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا جو ایک دوست نے سنایا ہے۔ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب میک اپ اور بناؤ سنگھار کے خلاف خوب پرجوش انداز میں تقریر کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ یہ سب حرام ہے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب! آپ کی بیگم بھی تو میک اپ کرتی ہیں۔ تھریڈنگ، پالیشنگ، پیڈی کیور، مینی کیور۔ یہ سب وہ بھی تو کرواتی ہیں۔ اس پر مولوی صاحب بالکل شرمندہ نا ہوئے۔ بلکہ کمال جواب دیا۔ آپ نے فرمایا ”او جنہی سوہنی اے، اوہنوں جچدا وی تے اے، اوہنوں سجدا وی تے اے“ یعنی جتنی وہ خوبصورت ہے اسے میک اپ جچتا بھی تو ہے۔ تو صاحبو، چوہدری سرور اور جہانگیر ترین جتنے امیر ہیں انھیں دوسروں کے ضمیر خریدنا، چوری چکاری جچتی بھی ہے اور سجتی بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).