چوہدری نثار: پارلیمانی سیاست کا مجبور شہسوار


پاکستان

چوہدری نثار 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے لے کر آج تک کسی الیکشن میں نہیں ہارے

اگر چوہدری نثار علی خان کے بارے میں کہا جائے کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں آنکھ کھولی تو غلط نہ ہو گا۔

انھوں نے 31 سال کی عمر میں پہلی بار قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر قومی سطح پر اپنی سیاست کا آغاز کیا اور ابھی تک مسلسل جیتتے ہی آ رہے ہیں۔ وہ ان گنے چنے ارکان اسمبلی میں شامل ہیں جو 1985 سے لے کر 2013 تک تمام الیکشنز جیتے ہیں۔

لیکن اب ان کی یہی طاقت ان کی سیاسی کمزوری کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔

مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ ان کے سرد گرم تعلقات کوئی نئی بات نہیں۔ وہ کبھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ نہ ملنے پر ناراض ہو جاتے ہیں اور کبھی ان کے بغیر کوئی اجلاس شروع کر دیے جانے پر۔

چوہدری نثار اور مسلم لیگ ن کے درمیان تعلقات میں دراڑوں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے پڑھیے

چوہدری نثار کو غصہ کیوں نہ آئے؟

کیا حکمران جماعت میں دراڑیں پڑ رہی ہیں؟

’اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات نہیں ہوتی‘

لیکن اس بار ان کی ناراضی کو میاں نواز شریف نے سنجیدگی سے لے لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بارے میں آج کل یہ تاثر عام ہے کہ وہ بیک وقت دو کشتیوں یعنی مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف میں سواری کی کوشش میں ہیں۔

عمران خان کی جانب سے انہیں اپنی جماعت میں شامل ہونے کی سر عام دعوت نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ وہ تحریک انصاف میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ لیگی حلقے البتہ اس بات کی تردید کرتے ہیں۔

انہیں یقین ہے کہ چوہدری نثار کبھی بھی مسلم لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل نہیں ہوں گے۔

نواز لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سلمان غنی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ چوہدری نثار مسلم لیگ چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہے۔ اس کی وجہ وہ ان کی مسلم لیگ ن کے نو منتخب صدر شہباز شریف سے پرانی دوستی کو قرار دیتے ہیں۔

‘ایسے وقت میں جب شہباز شریف کو پارٹی سنبھالنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، ایسے میں اگر وہ پارٹی چھوڑتے ہیں تو اس سے شہباز شریف کی قیادت پر سوالات اٹھیں گے اور بہت پرانے اور ذاتی دوست ہونے کے ناطے چوہدری نثار ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔’

تو پھر چوہدری نثار کا مسئلہ ہے کیا؟

چوہدری نثار اور ان کی سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ پارلیمانی اور حلقے کی سیاست جو ہمیشہ سے چوہدری نثار کی طاقت رہی ہے، آئندہ انتخابات میں وہی ان کا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔

چوہدری نثار کا اپنے حلقے میں ایک بڑا خاندانی اور ذاتی ووٹ بنک ہے۔ ان کا خاندان پاکستان بننے سے پہلے اس علاقے میں سیاسی و سماجی اثر رکھتا ہے۔ یہی اثرورسوخ چوہدری نثار کے ووٹ بنک کا بڑا حصہ ہے۔ لیکن یہ ووٹ اتنے نہیں ہیں کہ انہیں بغیر کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت کے الیکشن جتوا دے۔

یعنی انہیں الیکشن جیتنے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت درکار ہو گی۔

چوہدری نثار علی خان نے اپنے قائد نواز شریف کے خلاف جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کا نقصان انہیں یہ ہوا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ن لیگ انہیں اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ نہ دے۔

اگر شہباز شریف کی بدولت ایسا ہو بھی گیا تو بھی انہوں نے اپنے حلقے میں نواز شریف اور ان کے بیانیے کے خلاف کھلم کھلا جوتقاریر کی ہیں، ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن کے وہ ووٹرز جو نواز شریف کے بیانیے کے قائل ہیں، وہ ٹکٹ ملنے کے باوجود چوہدری نثار کو ووٹ نہ دیں۔

اس صورتحال کا براہ راست فائدہ پاکستان تحریک انصاف کے دیرینہ امیدوار غلام سرور خان کو ہونے کا قوی امکان ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ اپنی ایک سالہ سیاست کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان نے آئندہ الیکشنز میں اپنی جیت کو مشکل بنا دیا ہے اور انتخابی سیاست میں شکست کی انہیں عادت نہیں ہے۔

تو ان کے پاس اب کیا آپشن ہے؟

پاکستان

کیا اگلے انتخابات میں چوہدری نثار کسی سیاسی حلیف کی تلاش میں ہیں؟

اس کا جواب حلقے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی صحافی رؤف کلاسرا کے پاس ہے۔

‘چوہدری نثار کا ہدف یہ ہے کہ انہیں کسی پارٹی سے ٹکٹ ملے یا نہ ملے، وہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے مقابلے میں یہ دونوں جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے نہ کریں۔’

چوہدری نثار کے حلقے میں ووٹوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے لیے آئیڈئیل صورتحال یہی ہے کہ وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں اور تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں ہی ان کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کریں۔

اگر وہ ن لیگ کا ٹکٹ لیتے ہیں اور تحریک انصاف غلام سرور کو ٹکٹ دیتی ہے تو ان کا نواز مخالف بیانیہ اور عمران خان کی مقبولیت مل کر ان کے الیکشن جیتنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اور اگر وہ تحریک انصاف میں شامل ہو کر اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں تو وہ ن لیگ کے ووٹرز کھونے کا خطرہ مول لیں گے۔

پارلیمانی سیاست کے شہسوار آج اسی سیاست کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہے کہ ایک نہیں بلکہ دو دو کشتیوں کا سہارا تلاش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp