موشے دایان اور ضیا الحق سے مودی تک


پچھلے دنوں بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ دورہ ابھی تک کچھ حلقوں میں زیر بحث ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پورا دورہ ہی پاکستان کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کی ایک تازہ ترین کڑی تھی۔ اس سے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ مذید مضبوط ہوا ہے۔ دونوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں صلاح ومشورہ کیا ہے۔ اور اس حوالے سے کوئی سازش بھی تیار کی ہو گی۔ پاکستان میں سازشی تھیوریوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہاں ائے دن نت نئی تھیوریاں گردش کرتی رہتی ہیں۔

پاکستان کے خلاف باہر سے سچ مچ کی سازشیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن مودی کا دورہ ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ کئی سوالات اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ اور یہ ہمیں یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ پاکستان کو اپنی گلی سڑی خارجہ پالیسی کو از سر نو ترتیب دینے اور نئے دور کے تقاضوں سے ہم اہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکوں کی خارجہ پالیسی کوئی مستقل چیز نہیں ہوتی۔ اسے بدلتے حالات کے ساتھ بدلنا چاہیے۔ لیکن ہم خارجہ پالیسی کو کسی مقدس کتاب کی طرح سمجھتے ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی فرسودہ پالیسی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اور اس بات پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری پالسیے بہت پرانی ہے۔ حالانکہ نصف صدی پہلے جن حالات اور ضروریات کے پیش نظر یہ پالیسی بنائی گئی تھی وہ حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ وہ ضروریات بدل چکی ہیں۔

اسرائیل سے ہماری دشمنی کی وجہ فلسطین رہا ہے۔ لیکن تاریخی اعتبار سے فلسطینی ہماری نسبت بھارت کے بہت قریب رہے ہیں۔ بھارت نے ہم سے زیادہ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کی۔ مہاتما گاندھی جی نے کھل کر اسرائیل کی مخالفت کی اور کہا تھا کہ فلسطینیوں کا اپنی زمین پر اتنا ہی حق ہے جتنا برطانویوں کا انگلستان پر۔ انے والے دنوں میں پنڈت جواہر لال نہرو فلسطینیوں کے حق میں ایک مضبوط عالمی آواز کے طور پر جانے جاتے رہے۔ انہوں نے غیر جانب دار تحریک کے رہنما کی حثیت سے بھی اور سویت یونین کے اتحادی کے طور پر بھی فلسطینیوں کی مکمل اور مسلسل حمایت کی۔ فلسطین کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر یاسر عرفات بھارت کے مسلسل دورے کرتا رہتا تھا اور اس کو اپنا دوسرا گھر کہتا تھا۔ پاکستان کی سر زمین پر وہ قدم رکھنے سے گریزاں رہتا۔

اس کی وجہ پاکستان کے کچھ ماضی کے حکمران اور کچھ سیاہ کارنامے تھے۔ ایک سیاہ کارنامہ بلیک ستمبر سے جڑا تھا۔ یہ سیاہ کارنامہ برگیڈئیر ضیا الحق نے انجام دیا۔ شاہ حسین کی ایما پر انہوں نے فلسطینیوں کے قتل عام کی قیادت کی۔ اس مہم کے دوران بعض روایات کے مطابق بے دردی سے قتل ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد پچیس ہزار تک تھی۔ یہاں تک کہ اسرائلی لیڈر موشے دایان اس پر داد دینے پر مجبور ہوا۔ اس نے کہا کہ اس مہم میں سات دن کے اندر اتنے فلسطینی مارے گئے جتنے ہم گزشتہ پچیس برسوں میں نہ مار سکے۔ یہ ایک بے رحم اسرائیلی لیڈر کا برگیڈئیر ضیا کو براہ راست خراج تحسین تھا۔

برگیڈئیر ضیا پاکستان لوٹا تو اس کے خلاف اس قتل عام کی وجہ سے کورٹ مارشل کی درخواست تھی۔ بعد میں یہ درخواست پراسرار طور پرغائب ہو گئی۔ یہ صاحب تیز رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے ارمی چیف بن گئے اور ذوالفقار علی بھٹوجیسے نابغہ روزگار شخص کو پھانسی چڑھا دیا۔ ضیا الحق ذاتی طور پر اسرائیل سے بہت متاثر تھا۔ وہ یہ غلط بات اکثر دہراتا رہتا تھاکہ دونوں ملک مذہب کے نام پر بنے ہیں۔ اگر اسرائیل سے یہودیت نکل جائے تو یہ ہاوس آف کارڈز کی طرح بیٹھ جائے۔ اور اگر پاکستان میں سیکولرازم آ جائے تو یہ ملک ٹوٹ جائے۔ یہ شاید پہلا پاکستانی لیڈر تھا جس نے سر عام فلسطینیوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔

پوری کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ پورے طریقے سے ہم نہ تو فلسطینیوں سے دوستی کر سکے اور نہ ہی اسرئیل سے دشمنی، اس کے بجائے ہم تضادات اور کنفیوزن کا شکار رہے۔ اسرئیل سے ہماری دشمنی کی ایک اور وجہ چودہ سو سال پرانی جزیرہ عرب کی سیاست ہے۔ یہ سیاست خود عربوں نے ترک کر دی۔ یہاں تک کے خود ان عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جن کی زمین پر وہ قابض تھا۔ مگر ہمارے کچھ مولوی حضرات اج بھی ہمارے بچوں کو سورہ مائدہ کی اس آیت کا وہ ترجمہ پڑھاتے ہیں جس میں اہل ایمان سے کہا گیا تھا کہ یہود و نصاری کبھی تمارے دوست نہیں ہو سکتے جبکہ عربی اورمصری عالم یہ کہتے ہیں کہ اس ایت کا مخاطب تو چودہ سو سال پہلے کا یہودیوں اور نصرانیوں کا وہ خاص گروہ تھا جو اس وقت اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا۔ ہمارا مولوی مگر بضد ہے کہ اس آیت کا مخاطب آج کا اسرائیل، امریکہ اور بھارت ہے۔

اسی تناطر میں غزوہ ہند کا تصور برصغیر میں اتنا زبان زد عام اور مقبول ہے۔ دوسری طرف عرب دنیا کے کئی بڑے بڑے عالم بھی اس لفظ سے نا آشنا ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی صرف ہماری وزارت خارجہ کے بابو ہی نہیں بناتے، اس میں ہمارے مولوی صاحب کا بھی بڑا حصہ ہے۔ چنانچہ اسرائیل اور بھارت وغیرہ کو ہم عقلی بنیادوں پر نہیں دیکھتے۔ ان کے ساتھ تعلقات کو ہم عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کسی کوا جازت بھی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس باب میں ہم دن بدن ایک نئی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).