سمیع اللہ سعدی صاحب کے مغالطے


\"ansarمحترم سمیع اللہ سعدی صاحب سیکولر حضرات کی طرف سے پیش کئے جانے والے دلائل، جنہیں وہ مغالطوں کا نام دیتے ہیں، اپنی دانست میں دس ’’ معروف مغالطے‘‘ منتخب فرما کر ان کا کچا چٹھا کھولنے کی سعی فرمائی ہے۔ خاکسار نہایت ادب سے ان کے ان دس نکات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کی جسارت کرتا ہے۔

سب سے پہلے نکتہ 1 میں سعدی صاحب فرماتے ہیں:

’’مودودی صاحب کی سیاسی فکر بے شمار مسلم سیاسی مفکرین میں سے ایک مفکر کی تعبیر ہے، اسے ’اسلامی سیاسی فکر‘ کے مترادف سمجھنا پہلا مغالطہ ہے‘‘

سوال یہ ہے کہ مودودی صاحب کی سیاسی  فکر اگرچہ کُلّی طور پر نہ سہی  تو  کیا جزوی طور پر بھی اسلامی ہے یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بے شمار مسلم سیاسی مفکرین کی آراء مل کر ایک مکمل اسلامی سیاسی فکر کی تشکیل کرتی ہیں یا  پھرچوں چوں کا مربّہ بن جاتی ہیں؟

نکتہ نمبر 2 میں سعدی صاحب جدید خارجی فکر کے ڈانڈے دور صحابہؓ میں پیدا ہونے خارجی فتنے سے ملاتے ہوئے اور اسے رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس فکر کو مسلم دنیا کے چوٹی کے فقہاء و مفکرین رد کرچکے ہیں۔خارجی سکول کوئی نیا مکتب فکر نہیں ہے۔۔۔مین سٹریم (جسے بآسانی جمہور بھی لکھا جاسکتا تھا) اسلامی مکاتب اسے صدیوں سے رد کرچکے ہیں۔‘‘

سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کے چوٹی کے فقہاء و نفکرین اور جمہور اسلامی مکاتب کا اس خارجی فکر کو رد کیا جانا کیا اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ غیر اسلامی ہے کیونکہ آپ نکتہ 8 میں فرماتے ہیں  کہ ’’مذہبی شخصیات کو اسلام کے ترازو میں تولا جائے گا۔ اسلام کو مذہبی شخصیات کے طرز میں تولنا مبنی بر مغالطہ ہے‘‘ تو پھر خارجی مکتبہ فکر کو جو آج کل اباضی فکر کی شکل میں اومان وغیرہ میں موجود ہے اور جسے اردن کے دارالحکومت عمان میں 2004 میں منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریبًا تمام مسلمان فرقوں کے علماء  نے اسلامی فکر تسلیم کیا، وہ آپ کے بیان کردہ چوٹی کے فقہاء و مفکرین کے مطابق کیسے غیر اسلامی ہے اور اگر ہے بھی تو ان کی رائے کی آپ کے نکتہ 8 کے پیش نظر کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

نکتہ3 میں سعدی صاحب وضاحت فرماتے ہیں کہ تھیوکریسی اسلامی فکر نہیں ہے۔حالانکہ بیشتر علماء قرآن کی آیت ’’اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولوا الامر منکم‘‘ میں خود کو اولوالامر قرار دے چکے ہیں جو تھیوکریسی کے سوا اور کچھ نہیں۔ پھر سعدی صاحب نے اسی غلطی کو دہرایا ہے جس کی نشاندہی میں ایک اور مراسلہ میں کرچکا ہوں کہ نظام کو چلانے والوں کی غلطیوں اور نقائص کے باعث نظام کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام ایک مرکز مائل نظام کو پیش کرتا ہے جو ایٹم سے لے کر نظام شمسی بلکہ بڑی بڑی کہکشاؤں تک میں پایا جاتا ہے۔ اس نظام کو چلانے والے اگر بہترین لوگ ہوں تو وہ خلافت راشدہ بن جاتا ہے اور اسی نظام کو بدترین لوگ چلائیں تو وہ پاپائیت کہلاتی ہے۔ تیسری غلطی ان کا سیکولرازم اور اسلام میں بُعد بتانا ہے جس کا باعث ان کی سیکولرازم کی تعریف و ماہیت سے ناواقفیت ہے۔

نکتہ نمبر 4 میں سعدی صاحب جو دے رہے ہیں اسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’مغالطہ‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ پہلے درجے کا شہری، دوسرے درجے کا شہری وغیرہ اصطلاحات کو ٹھیٹھ اسلامی سیاسی اصطلاحات کے قالب میں ڈھالنا مسلم سیاسی فقہ کی بنیادوں سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ یہاں وہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق اقرار و انکار کے مابین بات گول کرگئے ہیں اور زبان حال سے’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ کہتے ہوئے بات واضح نہیں کرتے کہ ان کی مزعومہ اسلامی ریاست میں شہریوں کے مابین مذہب کی بنیاد پر تفاوت ہے یا مساوات۔ اور اگر تفاوت ہے تو اس کی تاویل کیا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پچھلی صدیوں کے فقہا کے ساتھ ساتھ جدید دور کے عالم دین بشمول ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بھی واضح طور پر غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیتے ہیں۔

نکتہ نمبر 5 میں سیکولرازم کو ایک مذہب، ایک فکر اور ایک ضابطہ قرار دینے کی ان کی بات بالکل درست ہے اور میں اس کی مکمل تائید کرتا ہوں کیونکہ قرآن میں ہے ’’ولکل وجھۃٍ ھو مولیھا‘‘ ہر ایک کا اپنا اپنا مطمح نظر ہوتا ہے جس کی طرف وہ پھرتا ہے  (2:148)اس لحاظ \”سے صرف سیکولرازم ہی نہیں بلکہ دہریت بھی ایک مذہب ہے۔

نکتہ نمبر 6 میں سعدی صاحب فرماتے ہیں کہ ریاست میں اسلام کے عمل دخل کا قائل نہ ہونا خواہ کسی بھی شکل کسی بھی صورت میں ہو سیکولرازم ہے۔ سعدی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ میثاق مدینہ پڑھ کر دیکھ لیں معلوم ہوجائے گا کہ ریاست مدینہ  کا شہریوں کے مذہب میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس لئے خود ان کے اپنے وضع کردہ اصول کے مطابق ریاست مدینہ ایک سیکولر ریاست تھی۔ بات وہی ہے کہ سیکولرازم کا مطلب جانے بغیر یا اسے اپنا مطلب پہنا کر مطعون کیا جارہا ہے۔ بھٹو صاحب کے نعرہ کا جواز فراہم نہیں کررہا لیکن اس انداز کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’الشریعۃ اقوالی و الحقیقۃ احوالی والمعرفۃ راس المالی والعقل اصل دینی  والحب اساسی و الشوق مرکبی والخوف رفیقی والعلم سلاحی والحلم صاحبی والتوکل زادی والقناعۃ کنزی والفقر فخری‘‘(شریعت میرے اقوال ہے حقیقت میرا احوال ہے معرفت میرا راس المال ہے عقل میرے دین کی اصل ہے محبت میری اساس ہے شوق میری سواری ہے خوف میرا )

رفیق ہے علم میرا ہتھیار ہے حلم میرا مصاحب ہے توکل میرا زادراہ ہے قناعت میرا خزانہ ہے اور فقیری میرا فخر ہے ،

سعدی صاحب کے پیش کردہ نکتہ نمبر7 سے اختلاف کی بظاہر کوئی گنجائش نظر نہیں آتی جس میں وہ فرماتے ہیں اسلامی سیاسی فقہ کے اصول و کلیات اور مسائل و جزئیات میں اسلام کے تمام شعبوں سے زیادہ لچک ہونے کے باعث جدید دور میں ایک مکمل اسلامی ریاست کا قیام اتنا ہی ممکن الوقوع ہے جتنا کہ قرون اولیٰ میں تھا۔ میرا اعتراض اس پر وہی پرانا ہے کہ ریاست اسلامی بنیادوں پر قائم اور چلائی تو جاسکتی ہے لیکن اسلامی یا مسلم نہیں کہلائی جاسکتی کیونکہ ریاست کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا۔ اگرچہ بظاہر ایسا نام دینے سے کوئی خاص فرق نہ پڑتا ہو لیکن اس سے فتنہ کا ایک باب کھل جاتا ہے جس سے بچاؤ کے لئے میں پرہیز اور  احتیاط  کا نسخہ تجویز کرتا ہوں۔

نکتہ نمبر8 میں سعدی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’مذہبی شخصیات، ادارے اور جماعتوں کے طرز عمل اور طریقۂ کار میں نقائص سے اسلامی ریاست کی خامیوں پر استدلال آٹھواں مغالطہ ہے۔‘‘ اس کے بارے میں میں اوپر بعینہہ یہی عرض کرچکا ہوں کہ اچھا نظام اگر غلط چلانے والوں کے ہاتھ لگ جائے تو پھر وہی حال ہوتا ہے جو بندر کے ہاتھ ماچس آجانے سے جنگل کا ہوتا ہے۔ اس لئے کسی نظام پر تنقید کرتے وقت دیکھ لینا چاہئے کہ آیا نظام اپنی ذات میں غلط ہے یا اسے چلانے والوں کا طریقہ کار غلط ہے۔  جو دلیل آپ اسلامی نظام کے دفاع میں دے رہے ہیں وہی دوسروں کے حق میں بھی کبھی استعمال کرکے دیکھ لیں۔ انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔ اس کے بعد سعدی صاحب فرماتے ہیں: مذہبی شخصیات کو اسلام کے ترازو میں تولا جائے گا۔ اسلام کو مذہبی شخصیات کے طرز میں تولنا مبنی بر مغالطہ ہے۔‘‘ اس کے بارے میں بھی اوپر عرض کرچکا ہوں کہ یا تو آپ کی یہ بات درست ہے یا نکتہ نمبر 2 میں علماء کی آراء کو بنیاد بنا کر خارجی فکر کو غیر اسلامی قرار دینا۔ آپ کو اختیار ہے دونوں میں سے جو چاہے چُن لیں۔

نکتہ نمبر 9 میں بیان کردہ آپ کی یہ بات تو درست ہے کہ ریاست کا اسلامی بنیادی اصولوں پر قائم ہونا ضروری ہے چاہے اس کی شکل جو بھی ہو اور اس کا جو بھی نام رکھا جائے۔لیکن، جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے، کوئی بھی ریاست اسلامی نہیں ہوتی کیونکہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دین و مذہب انسانوں اور اشخاص کے لئے ہوتا ہے۔ ریاست انسان یا شخص یا بالفاظ دیگر مکلّف نہیں ہوتی۔ مکلّف اسے چلانے والے ہوتے ہیں جو چاہیں تو اسے خلافت راشدہ بنادیں چاہے تو پاپائیت۔ دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر حکومت خلافت نہیں ہوتی۔ خلیفہ کا مطلب جانشین ہوتا ہے اور خلافت جانشینی کو کہتے ہیں۔ خلیفہ اپنے پیشرو کے وضع کردہ نظام کو لے کر آگے چلتا ہے جبکہ ایک حکمران اپنی پالیسیوں کو نافذ کرتا ہے۔یہ ایک وضاحت طلب بات ہے اسے بعد میں کسی وقت ایک مفصل مضمون میں واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔

نکتہ نمبر10  میں بیان کردہ آپ کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ’’اسلامی سیاسی فقہ کے اٹل اور منصوص احکام، کلیات اور قواعد کلیہ کو جزئی مسائل، عارضی احکام، عرف پر مبنی فیصلے اور فقہاء کے مستنبط اجتہادی مسائل کے ساتھ خلط کرنا دسواں مغالطہ ہے۔‘‘ یہی بات آپ بالفاظ دگر پہلے ھی بیان کرچکے ہیں کہ علماء و فقہاء کی باتیں اور فیصلے غلط بھی ہوسکتے ہیں اس لئے انہیں اسلامی ریاست کے بنیادی قوانین نہیں سمجھنے چاہئیں۔ یہاں میں نے بھی ’’اسلامی ریاست‘‘ کی اصطلاح استعمال کرلی لیکن محض آپ کو سمجھانے کے لئے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments