سراج الحق کس سے انتقام لینا چاہتے ہیں؟


جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے سینیٹ انتخاب میں ووٹ خریدنے اور بیچنے کی بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ چئیر مین صادق سنجرانی کو اوپر سے ہونے والے اشارے پر ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’وہ نہیں جانتے کہ یہ اشارہ آسمان سے آیا تھا یا کسی دوسری جگہ سے موصول ہؤا تھا‘۔ سراج الحق نے منصورہ میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پورے ایون بالا کو اصطبل سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے انتخاب میں صرف چند گھوڑوں کی خرید و فروخت نہیں ہوئی بلکہ پورا اصطبل ہی بازار بنا ہؤا تھا۔ اسی لئے سینیٹ کے ارکان اب ایک دوسرے سے آنکھ بھی نہیں ملا سکتے۔ اس سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تواتر سے سینیٹ کے چئیر مین اور ڈپٹی چئیرمین کے انتخاب کو دھاندلی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ دولت کے بل بوتے پرسینیٹر بننے والوں کی رکنیت منسوخ کی جائے اور چئیر مین اور ڈپٹی چئیر مین کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جائے۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چئر مین عمران خان نے اپنی پارٹی کے ایسے بیس اراکین صوبائی اسمبلی کے ناموں کا اعلان کیا تھا جنہوں نے ان کے بقول چار کروڑ روپے فی کس تک رشوت لے کر دوسری پارٹیوں کے امید واروں کو ووٹ دیا تھا۔

عمران خان کے اعلان اور اب امیر جماعت اسلامی کے تبصرہ کے بعد یہ بات سنجیدگی سے نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے ایوان بالا کے منتخب ہونے والے باون نئے ارکان اور ان کی قوت کی بنیاد پر حیران کن طور پر بلوچستان کے نامعلوم صادق سنجرانی کو چئیر مین منتخب کرنے کے عمل کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ حیران کن حد تک بنیادی حقوق کے معاملہ میں سو موٹو اختیار کے تواتر سے استعمال کا دفاع کرنے والے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے بھی اس اہم قومی معاملہ میں خاموشی اختیار کی ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر اہم سیاسی لیڈروں کے بیانات اور اعترافات کی روشنی میں اگر صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو سپریم کورٹ کا کردار بھی شبہات سے پاک دکھائی نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ نے سینیٹ کے انتخاب کے فوری بعد دوہری شہریت کے الزام میں پانچ سینیٹرز کے انتخاب کا نوٹی فیکیشن نہ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس مقدمہ کی ابتدائی سماعت کے بعد البتہ یہ حکم دیا گیا کہ یہ لوگ فی الوقت سینیٹر کے طور پر حلف اٹھا سکتے ہیں اور چئیر مین اور ڈپٹی چئیر مین کے انتخاب میں بھی ووٹ دے سکتے ہیں لیکن ان کے معاملہ کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ گویا سپریم کورٹ ان پانچ ارکان کی دوہری شہریت کے معاملہ پر کسی حتمی نتیجہ تک تو نہیں پہنچی لیکن فوری ریلیف دیتے ہوئے ان سینیٹرز کو چئیر مین اور ڈپٹی چئیر مین کے اہم انتخاب میں ووٹ دینے کا حق دے دیا گیا۔

یہ انتخاب نہایت اہم تھے جن میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیر مین آصف زرداری مسلم لیگ (ن) سے انتقام لینے اور نواز شریف کو نیچا دکھانے کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے ۔ اس طرح وہ ان عناصر کا فرنٹ مین بننے پر بھی تیار ہو گئے تھے جو ہر قیمت پر نواز شریف کا سیاسی راستہ روکنے پر کمر بستہ ہیں۔ اگرچہ انہی عناصر کے خلاف خطابت کے جوہر دکھانے پر انہیں جون 2015 میں جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اسی لئے سینیٹ چئیر مین کے انتخاب میں نہ تو پیپلز پارٹی نے اپنا امید وار کھڑا کیا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کی طرف سے رضا ربانی کو امیدوار بنانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کا چئیرمین بنوانے کے وعدہ کو قبول کیا۔ اور ایک غیر معروف سیاست دان صادق سنجرانی کا انتخاب ضروری سمجھا۔ اگرچہ یہ کام بلوچستان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے نام پر کیا گیا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ گزشتہ سال دسمبر میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) سے بغاوت کرنے والے اراکین اسمبلی دراصل ملک کے سیاسی دنگل میں نواز شریف کی سیاست کے لئے مسائل پیدا کرنے کے کام کا آغاز کررہے تھے۔ بلوچستان سے شروع ہونے والی یہ نام نہاد بغاوت سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت کے باوجود ، اس کی ناکامی پر منتج ہوئی۔ اسے زرداری اپنی، عمران خان تحریک انصاف کی اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بلوچ عوام کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اسی تجربہ سے کو اب قومی انتخابات کے بعد وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے آزمانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس لئے ملک کے باخبر لوگوں کو اس بات پر ہر گز حیرت نہیں ہو گی اگر متوقع انتخابات کے بعد کوئی نیا ’صادق سنجرانی‘ ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے اور پانچ سال سے اس عہدہ کے لئے تگ و دو کرنے والے عمران خان تاکتے رہ جائیں۔

سینیٹ کے انتخاب میں دھاندلی اور جعل سازی ایک اہم اور تشویشناک معاملہ ہے۔ سیاست دانوں کے اعتراف اور الزام تراشی کے باوجود ملک کے الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ نے ابھی تک اس معاملہ کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار متعدد مواقع پر یہ یقین دلا چکے ہیں کہ وہ ملک میں شفاف انتخابات کے ضامن ہیں۔ اور جمہوریت کے خلاف کسی بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ جمہوریت کے تسلسل کے لئے ان کے عزم پر یقین کا یہ عالم ہے کہ عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید نے گزشتہ دنوں قومی انتخابات نومبر تک ملتوی کرنے کی خبر دیتے ہوئے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ نئے انتخابات تھوڑے عرصہ کے لئے ملتوی ضرور ہوں گے لیکن وہ جسٹس ثاقب نثار کے عہدہ کی مدت کے دوران ہی کروا لئے جائیں گے۔ ایسےمیں اگر سینیٹ کے انتخابات پر مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کی طرف سے انگشت نمائی ہو رہی ہے تو اس پر سپریم کورٹ کی خاموشی ناقابل فہم ہوگی۔ سپریم کورٹ اگر اس معاملہ کو غیر ضروری اور ملک کے کثیف سیاسی ماحول میں الزام تراشی سمجھ کر نظر انداز کرتی ہے تو یہ سوال تو بہر حال موجود رہے گا کہ جس ملک میں سینیٹ کے انتخاب میں اس پیمانے پر دھاندلی اور خرید و فروخت ہو چکی ہو کہ ملک کی سب سے با اصول جماعت ہونے کی دعویدار جماعت اسلامی کے امیر بھی ’پورے اصطبل‘ کو منڈی قرار دے رہے ہوں تو ایسی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے شفاف انتخابات کے لئے دی جانے والی ضمانت کی کیا حقیقت رہ جائے گی۔

اس کےساتھ ہی البتہ یہ سوال بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جماعت اسلامی کو سینیٹ انتخاب پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے تحریک انصاف کی نیت کو مشتبہ بنانے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ جیسا کہ خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان شوکت یوسف زئی نے سراج الحق کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی پانچ برس تک صوبے میں حکومت کے مزے لوٹتی رہی ہے اور اب اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے چند ہفتے پہلے وہ بھولے بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس تبصرے کا صرف یہی مفہوم لیا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی انتخاب سے پہلے اپنی علیحدہ شناخت کو نمایاں کرنے کے لئے پانچ برس تک تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد میں شریک ہونے کے باوجود اس کی پوزیشن اور نیت کو مشکوک بنا رہی ہے تاکہ اپنے لئے ووٹروں کے دلوں میں گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

جماعت اسلامی نظریاتی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے لیکن اس نے ماضی میں فوجی حکومتوں کا دست و بازو بن کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور 2013 کے انتخاب کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کے پی کے پر حکومت کی۔ لیکن انتخاب سے عین پہلے وہ اپنی ہی حلیف جماعت کو بد نیت قرار دینے کی کوشش کرکے پھر سے نظریاتی ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ جماعت اسلامی میں اپنے نظریات کو نافذ کرنے کے لئے اس وقت کا انتظار کرنے کا حوصلہ نہیں ہے جب ووٹر اس کے منشور کو درست مانتے ہوئے اسے اتنے ووٹ دیں کہ وہ اقتدار میں آجائے۔ اور نہ ہی یہ جماعت اقتدار سے دور رہنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے جماعت اسلامی ایم ایم اے بنوا بھی سکتی ہے اور اسے توڑ بھی سکتی ہے۔ سراج الحق کو یہ سوچنے اور سمجھنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی اگر نظریاتی جماعت ہے تو وہ اقتدار کے لئے ہر جائز ور ناجائز ہتھکنڈہ کیوں اختیار کرتی ہے اور اگر وہ عام سیاسی جماعت ہے تو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کس کو دھوکہ دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali