اقبال قائد قائد اعظم کی نظر میں


تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کے کسی بھی فرد، معاشرے، ملک اور قوم کے عروج و زوال، نشیب و فراز، ترقی و تنزلی، بلندی و پستی کے پیچھے کوئی نہ کوئی فکر، سوچ اور نظریہ بہرصورت کار فرما ہوتا ہے۔ جب ہم بات کرتے ہیں نظریۂ پاکستان کی تو اس کے پیچھے بہت سے درخشاں ستارے اوجِ ثریا پر دمکتےنظر آتے ہیں۔ جن کی سوچ، نظریات، خیالات اور افکار کا واضح اور زندہ و تابندہ ثمر پاکستان کی صورت میں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ ان ناقابل ِ فراموش شخصیات میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کا نام نامی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ لفظِ اقبال (بلندی) کا حقیقی عکاس نظر آتا ہے

علامہ اقبال کی شاعری تنزلی و پستی میں مبتلا قوم کے لئے عطیہ خداوندی تھی۔ شاعرِ اسلام نے خوابِ غفلت میں مبتلا اسلامیانِ ہند کو جھنجوڑ کر فکر و تدبر کی راہ دکھلائی۔ ایک پسماندہ قوم کواس کاخوش بخت و سنہرا ماضی یاد کرایا۔ امت کے حکیم نے مسلم تاریخ سے نابلد قوم کو یاد دلایا کہ
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج ِ سرِ دارا

اقبال مسلمانانِ ہند کی زبوں حالی اور پستی کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے تھے اور کسی ایسے دور اندیش و صاحبِ بصیرت کے منتظر تھے جو ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے ایسے میں اقبال کی نظر ِ انتخاب ایک ہی ہستی پر جاکے ٹھہریں

وہ شخصیت محمد علی جناح تھے، خود کو جن کا ادنیٰ سپاہی قرار دینے میں اقبال فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ محققین  کے مطابق اقبال ؒ کی زندگی کے آخری تین چار برسوں میں اُن کی سیاسی و فکری ہم آہنگی اور دوستی قائدِ اعظم سے بہت گہری ہو گئی تھی اِس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی  و فکری میدان میں ایک طویل عرصہ تک اقبال نے تنہا سفر کیا تھا، اُن کی صحیح معنوں میں ہمنوائی کہیں موجود نہ تھی، لیکن قائدِ اعظم کی شخصیت و صلاحیت نے اقبال کو اُمید کے نغمے اور یقین کے گیت گانے پہ مجبور کیا
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں

علامہ اقبال ؒ نےقائد اعظم ؒسے بذریعہ خط و کتابت ہندوستان کی دیگر اقلیتوں کےبالعموم اور مسلمانوں کے بالخصوص تہذیبی، ثقافتی اور آئینی مسائل پر نہ صرف تبادلہ خیال کیابلکہ مسلمانوں کی سیاسی خودمختاری، بنیادی حقوق، مذہبی آزادی اور ملی تشخص کی سعی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ ان خطوط سے جو اہم بات پتہ چلتی ہے وہ یہ کہ ہندوستان کے دستوری مسائل پہ اقبال کی جو بیتابی تھی اُسے اقبال کے مطابق کوئی اور سمجھ نہیں پا رہا تھا، اقبال کی نظر میں اُن مسائل کا صحیح ادراک صرف قائد اعظم کر سکتے تھے۔ اقبال نے ان خطوط میں ایک رہبر کی طرح قائد اعظم کی رہبری کی اور نہ صرف اپنے تجزیات بلکہ ایسی تجاویز بھی شیئر کیں جو آگے چل کر ”نشانِ منزل‘‘ بنیں

قائد اعظم ؒ علامہ اقبال ؒ کی دور اندیشی اور فکر کے معترف نظر آتے ہیں۔ امت کے حکیم نے تشخیص ِ امراض کا فریضہ مستحسن انداز میں سرانجام دیا جبکہ عظیم قائد نے تشخیص کردہ امراض کا معائنہ کرتے ہوئے بر وقت ان کا سدباب کیا۔ اقبال ؒ نے وجودِ پاکستان کا خواب دیکھا تو قائد نے اس کوپایہ تکمیل تک پہنچایا۔ حضرت قائد کے الفاظ میں :

Iqbal ‘was one of the few who originally thought over the feasibility of carving out of India . . . an Islamic state in the North-west and North-east zones which are historical homelands of Muslims”.

علامہ اقبال ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے پہل ایک اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا تھا، ایک ایسی مملکت جو کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطوں پر مشتمل ہو گی جو کہ تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کا وطن سمجھے جاتے ہیں

علامہ اقبال کا جنازہ

تحریک پاکستان کے پر آشوب اور کٹھن دور میں جہاں قائد اعظم کو مشکل درپیش آئی علامہ اقبال نے خوش اسلوبی سے ان کا حل تجویز کیا۔ دونوں رہنماؤں میں ہونے والی خط و کتاب نہایت تاریخی اہمیت کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم مکاتیب اقبال کے معترف تھے۔

قائد اعظم نے ایک دفعہ اقبال کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقبال ؒ سے اپنی محبت و عقیدت کا یوں اظہار کیا
اگر میں اس تقریب میں شامل نہ ہوتا تو اپنی ذات کے ساتھ بڑی نا انصافی کرتا۔ مَیں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے اس جلسہ میں شریک ہوکر اقبال مرحوم کو عقیدت کے پھول پیش کرنے کا موقع ملاہے۔ اقبال کی ادبی شہرت عالم گیر ہے۔ وہ مشرق کے بہت بڑے بلند پایہ شاعراور مفکر اعظم تھے۔ مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے شارح تھے۔ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی اورشخص نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس امر کا فخر ہے کہ مَیں نے ان کی قیادت میں بحیثیت ایک سپاہی کے کام کیا۔ مَیں نے ان سے زیادہ اسلام کا وفادار اور شیدائی نہیں دیکھا

اگر کسی اہل علم و دانش کو عمارت اور معمار میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو وہ معمار کو ہی منتخب کرے گا کیونکہ معمار عمارت سے کہیں اہم ہوتا ہے قائد نے اقبال کو معمارِ قوم گردانتے ہوئے اعلی بصیرت کا ثبوت دیا اور اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

شُعراء قوم میں جان پیدا کرتے ہیں ملٹن، شیکسپئر اور ہائرن وغیرہ نے قوم کی بے بہا خدمت کی ہے۔ کار لائل نے شیکسپیئر کی عظمت کا ذِکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا ہے۔ اُسے جب شیکسپیئر اور دولتِ برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اِختیار دیا گیا تو اُس نے کہا کہ میں شیکسپیئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا

یہاں یہ بات قابل ِغور ہے کہ جناح کی ساری زندگی کی جدوجہد اور انتھک کاوشوں کی تکمیل حصولِ ریاست پر ہو رہی تھی۔ جبکہ انہوں نے علامہ اقبال کو اس قدر والہانہ خراج تحسین پیش کیا کہ انہیں ریاست سے بھی قیمتی قرار دیا۔ قائد حقیقت شناس ہونےکے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ صدیوں بعد ایک دور اندیش مفکر جنم لیتا ہے جو قوموں کی صدیاں تعمیر سکتا ہے
ہر عظیم تحریک کی پشت پر کوئی فلاسفر کارفرما ہوتا ہے اور اقبال مسلم انڈیا کے نشاط ثانیہ کا فلاسفرتھا۔ وہ نہ صرف مسلم قوم بلکہ دیگر اقوام عالم کے لئے بھی ایک عظیم اور جامع کام کی صورت میں نہایت اہم وراثت اور پیغام چھوڑ گئے ہیں

26 دسمبر 1938ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس پٹنہ میں قائداعظمؒ نے اپنےتحریکی دوست و مربی علامہ اقبال ؒ کی وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے اپنی صدارتی خطبہ میں فرمایا
مسلم لیگ پہلے ہی سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی وفات پر تاسف کر چکی ہے، آپؒ کی وفات سےمسلم انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے۔ علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعراءمیں ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا۔ ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری ہمارے لئے اور ہماری آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ کا کام دے گی

قرار داد پاکستان 1940 کی منظوری کے بعد ایک دن قائد اعظم ؒنے اپنے سیکرٹری سید مطلوب الحسن سے گفتگو کے دوران فرمایا اگر چہ اقبالؒ  ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے بعین وہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے

مذکورہ بالا اعترافی بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال ؒ اور قائد ؒایک دوسرے سے کس قدر متاثر تھے۔ دونوں عظیم قائدین کی فکری مماثلت، ذہنی ہم آہنگی اورقلبی محبت وا حترام کابخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ تصور پاکستان، تاریخ پاکستان، تحریک پاکستان، تعمیر پاکستان اور تشکیلِ پاکستان کے نہ صرف دو اہم سپوت بلکہ ایک ہی قافلے کے دو سپاہی ہیں۔ جن کی شب و روز کی انتھک محنت اور مسلمانان برصغیر کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں دنیا ئےعالم کا نقشہ بدلا اور پاکستان بصورت آزاد ریاست معرضِ وجود میں آیا۔ اللہ تعالیٰ اس ارضِ مقدس کو اندرونی لٹیروں اوربیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھےاور ہمیں مصورِ پاکستان اور بانئِ پاکستان کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی توفیقِ خاص سے ہمکنار فرمائے۔ امین!

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya