عورت کو ہراساں نہیں دیکھا


مردوں کی طرف سے جنس مخالف کو تنگ کرکے پریشان کرنے کو لغت سے ہٹ کے ”جنسی ہراسانی“ کہا جانے لگا ہے۔ خیر زبان تو بنتی بگڑتی رہتی ہے، میں کونسا لغت نویس یا زبان کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہوں کہ تصحیح کراتا پھروں مگر جنس مخالف کو تنگ کرکے پریشان کرنے والوں کی جو جو حرکات بیان کیے جانے کے قابل ہیں اور مضامین یا شذروں میں لکھ کر بیان کی جا رہی ہیں وہ سب کی سب حرکتیں بیہودہ پن کے سوا کچھ نہیں۔ جیسے موٹر سائکل پر بیٹھے کسی خاتون کے بدن کو چھو لینا یا بدن کے کسی حصے پر ہاتھ پھیر دینا، آنکھ مارنا، عورت کو دیکھ کر مسکرانا اور اگر دیکھنے والے کی مونچھیں ہوں تو ساتھ ساتھ ان کو بل دینا، فحش یا غیر فحش فقرے کسنا، عورت کے سامنے بیٹھے مرد کا اپنے جسم کے کسی حصے کو بالخصوص ٹانگوں کے بیچ حصے کو کھجلانا یا سہلانا، ساتھ ہی معنی خیز انداز میں ٹکٹکی باندھے رکھنا، غرض ایسی اور بہت سی باتیں جو ایسے مردوں کے خیال میں عورتوں کو راغب کرنے کا موجب بن سکتی ہیں یا وہ اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ ان حرکتوں سے ان کی اپنی جنسی تشنگی میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بیہودہ پن تعلیم کی کمی اور تربیت کے فقدان یا نامناسب تربیت پانے کا شاخسانہ ہوتا ہے۔

جس طرح ہراساں کیے جانے کا ذکر مغرب سے مستعار لفظ ”ہراسمنٹ“ کی نسبت سے ہے، اس میں جاہل معاشروں کی یہ بیہودہ حرکات تو خیر شامل ہی نہیں ہوتیں کیونکہ مغرب میں اس قسم کی گری ہوئی حرکات کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی حرکتیں غیر متمدن ملکوں کے غیر متمدن لوگ ہی کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک ایسا ہی کم پڑھا لکھا نوجوان ایک مغربی ملک پہنچا تو وہ ٹرانسپورٹ میں موجود عورتوں کو چپکے چپکے چھوتا تھا۔ ایسا کیے جانے پر عورتیں عموماً اس پر نگاہ غلط انداز ڈال کر درگزر کرتیں یا منہ ہی منہ میں اجڈ کہہ دیتیں۔ دوستوں نے اس شخص کو بہت سمجھایا کہ یہاں ایسی حرکت کرنا بے حد معیوب خیال کیا جاتا ہے مگر وہ باز نہیں آ سکتا تھا نہ آیا۔ بالآخر ایک روز ایک باہمت خاتون نے پلٹ کر اس سے کہا، “ بس، کیا تمہیں یہی کرنا آتا ہے۔ اس سے آگے تو بڑھو“۔ وہ اسے جنسی پیشرفت کی ترغیب نہیں دے رہی تھی بلکہ اس کا طنز کاٹ دار تھا کہ مرد تو خاتون کو راغب کرنے کے لیے مہذب طریقے استعمال کرتے ہیں، جیسے متعارف ہونا، تھیٹر یا ریستوران جانے کے لیے مدعو کرنا وغیرہ اور تم خواتین کو پریشان کر رہے ہو۔ ہراساں کیے جانے میں درحقیقت پیشرفت یا دست درازی سے عورت کے انکار یا پریشان ہونے کا ذکر ہے۔

عارضی محبت کے اظہار یعنی فلرٹیشن اور ہراسمنٹ میں اگر کوئی فرق ہے تو اس عمل سے عورت کی بے چینی، اکتاہٹ یا تنفر کی کیفیت کا فرق ہے۔ کیونکہ مغربی معاشرے میں عورت سے متعارف ہونے، اسے مدعو کرنے، پھر جسمانی طور پر نزدیک ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس پاکستان اور اس جیسے معاشروں میں یہ سب اعمال بہت حد تک قابل اعتراض حرکات کے زمرے میں آئیں گے۔ دیکھیے دوسرے ملکوں میں ریستوران لے جانے کی دعوت قبول کیے جانا مرد کو عورت کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب قریب آنے پر اسے اعتراض نہیں ہوگا، بصورت دیگر خاتون ایسی دعوت قبول ہی نہیں کرتی یا مناسب بہانہ بنا کر مرد کو شرمسار ہونے سے بچا لیتی ہے۔ مگر پاکستان میں ریستوران لے جانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مدعو کرنے والا مدعو کی گئی خاتون کو خلوت میں چلنے کو بھی کہے۔ پھر کتنے ہوں گے جو دعوت دیتے ہوں گے اور کتنی ہوں گی جو یہ دعوت قبول کر لیتی ہوں گی۔

ہراساں کیے جانے کا معاملہ تب آتا ہے اگر مرد غلط فہمی کا شکار ہو کر کوئی پیش رفت کرے یا ہلکی پھلکی دست درازی سے کام لے اور دوسرے فریق کے معترض یا انکاری ہونے کے باوجود باز نہ آئے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ خاتون چونکہ اپنی مرضی سے ایک حد تک اس مرد کے قریب آئی ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں تو اس نے اس مرد کے ساتھ بڑھتی ہوئی اپنی دوستی پر اعتراض کرنے والوں کو بھی مسترد کیا ہوتا ہے، چنانچہ معاملہ گلے میں پھنسی چھپکلی کا سا ہو جاتا ہے کہ نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔ ایسی صورت حالات میں بہت بے کلی ہوتی ہے، بہت پریشانی لاحق ہوتی ہے اور جب تک کوئی ”محرم راز“ میسر نہ آئے ایسی بات کہے نہیں بنتی۔ معاملے کو برسرعام کرنا بے حد پریشانی اور بڑی ہمت دونوں کا ہی رہین منت ہو سکتا ہے۔

مرد کی سرشت اور ہے عورت کی سرشت اور عورت کسبی بھی ہو تو پہل کرنے سے گریزاں رہے گی اور مرد متقی بھی ہو تو اس کے ذہن میں کلبلاہٹ ہوگی کہ بات کسی نہ کسی طور بڑھانی چاہیے۔ میں ایک بات کہتے ہوئے گھبرا رہا ہوں کہ میرے ”ریڈیکل فیمینسٹ“ دوست کہیں مجھ کو فوراً ”میسوگائنسٹ“ قرار نہ دے ڈالیں، ویسے وہ جو کہتے ہیں کہ ہر شخص میں تھوڑا سا شاونسٹ، تھوڑا سا میسوکسٹ، تھوڑا سا ساڈسٹ ہوتا ہے تو اسی طرح ہر فیمنسٹ مرد میں تھوڑا سا میسوگائنسٹ اور ہر میزوگائنسٹ مرد تھوڑا سا فیمنسٹ بھی ہوتا ہے، ریڈیکل ہونا تو ریڈیکل ہونا ہوتا ہے باعقیدہ شخص کے مصداق، تو وہ بات کیا ہے جو کہتے ہوئے میں گھبرا رہا ہوں؟ درحقیقت وہ بات میری کہی نہیں ہے بلکہ ایک روسی عوامی محاورہ ہے جو مردوں کی بجائے عام طور پر عورتیں بولتی ہیں، وہ یہ کہ ”اگر کتیا نہ چاہے تو ( جنس زدہ) کتا کچھ بھی نہیں کر سکتا“۔ یہ بات عموماً تب کہی جاتی ہے جب کوئی عورت کسی مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ بات یہ ہے کہ ناپسندیدہ معاملے سے انکار بہر طور کیا جا سکتا ہے۔

پر پاکستان جیسے ملک میں عورت کے انکار کی اول تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی دوسرے عورت مارے شرم کے کسی مرد کی جانب سے تنگ کیے جانے، دست درازی کرنے اور بیہودہ حرکات سے پریشان کیے جانے سے متعلق کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی کیونکہ اگر وہ کوئی نزدیکی شخص ہوا جیسے رشتہ دار یا کنبے کا دوست تو اس کی بات پر شاید اعتبار نہ کیا جائے اور الٹا وہی بری بنے۔ اگر کوئی باہر کا شخص تنگ کر رہا ہے تو وہ ڈرتی ہے کہ بات بڑھ نہ جائے۔ اس کا باپ، بھائی، شوہر اس شخص کو گزند پہنچا دے یا مار دے تو خود مصیبت میں پھنس جائے گا یا وہ شخص ہی اس کے باپ، بھائی یا شوہر کو گزند نہ پہنچا دے یا مار ڈالے۔ اس لیے عام طور پر ہراساں ہونے والی عورتیں دکھائی نہیں پڑتیں۔

اس کے برعکس ایک اور طرح کی خواتین ہیں جو ہراساں کیے جانے کو زود یا بدیر قبول کرکے اس کی قیمت لگا دیتی ہیں جو کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایک بار پھر ”ریڈیکل فیمنسٹ“ دوستوں سے استدعا ہے کہ تنک مزاجی سے گریز کریں کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے اور کم نہیں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جی ہاں آپ کے ملک میں ہی ہوتا ہے۔ ہراساں کیے جانے کا عمل ایسے میں ڈھلتا کبھی دکھائی نہیں دیتا اگرچہ اس کی ابتدا ہوتی ہراساں کیے جانے سے ہوتی ہے۔ اگر مرد مطالبہ نہ مانے تو ہراساں کیے جانے کا الزام کسی بھی وقت طشت از بام کیا جا سکتا ہے یا کم از کم وہ مرد خائف رہتا ہے کہ کہیں بات عام نہ ہو جائے۔ ہے یہ معیوب بات ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں بھی ہراساں کیے جانا ظاہر نہیں ہو پاتا یا شاید ہی ظاہر ہوتا ہے۔ بات دبا دی جاتی ہے کیونکہ ہراساں کرنے والا عموماً کسی بھی لحاظ سے بالادست ہوتا ہے اور ہراساں کیے جانے والی کسی نہ کسی لحاظ سے زیردست۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).