عورت راج معاشرے کے لیے خطرہ ہے


بحثیت عورت یہ بات کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے لیکن حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اکثر زبان کڑوی کرنی پڑتی ہے۔ پچھلے کچھ روز ’عورت راج‘ کا سوشل میڈیا پر خوب چرچا رہا۔ لیکن میرے خیال سے عورت راج سیدھا سادھا معاشرے کے لیے خطرہ ہے۔ ذرا اپنے خاندان میں غور کر لیجیے۔ ایک گھر ایسا تلاش کیجئے جہاں مرد کا رعب قائم ہو اور ایک گھر ایسا تلاش کیجئے۔ جہاں عورت راج چلتا ہو۔ فرق آپ کو خود ہی ظاہر ہو جائے گا۔ کچھ لوگ اسلام میں عورت کے مقام اور عورت کی آزادی سے متعلق بات کرتے ہوئے کچھ زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق ضرور دیے ہیں۔ لیکن عورت راج کی اجازت ہرگز نہیں دی۔ ہاں البتہ مرد کو عورت پر عظیم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان کچھ حوالوں سے فرق ضرور رکھا ہے۔ اور یہ فرق ہی عورت کو معتبر بناتا ہے۔ قرآن پاک کی سورت النسا کی آیت کا ترجمہ ہے کہ
”مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اسی وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اور اسی وجہ سے کہ انہوں نے مال خرچ کیے‘‘

عورت راج کی حامی ”میرا جسم میری مرضی کے ‘‘ بینر ہاتھ میں اٹھا کر سڑکوں پر دوڑ لگانے والی عورتیں اس وقت کہاں تھیں جب سندھ میں ایک گلوکارہ ثمینہ سندھو کو گانے کے ساتھ رقص کرنے کا کہا گیا۔ ثمینہ سندھو نے اپنے جسم پر اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی لیکن یہ مرضی اس کو قبر تک لے گئی۔ خبروں میں یہ بھی آیا ہے کہ ثمینہ سندھو حاملہ تھی۔ یعنی کے عورت سے لطف اندوز ہونے والا معاشرہ دو زندگیاں نگل گیا۔ میں نے بہت تلاش کیا لیکن مجھے عورت راج کی کوئی ایک بھی ایسی ریلی نہ ملی جو گلوکارہ ثمینہ سندھو کے حق میں نکلی ہو۔ کیا عورت راج کی حامی خواتین کا حق نہیں بنتا کہ وہ سب سے پہلے عورت کو اس قید معاشرے اور مرد کی غلامی سے نجات دلوا کر اسے مرد کے برابر لا کھڑا کرے۔ کیا عورت راج کی حامی مرد و خواتین کو ثمینہ سندھو پر ہونے والا ظلم نظر نہیں آیا۔ اس معاشرے کی چند آزاد عورتوں نے اس معاشرے کو اتنا بے باک کر دیا ہے کہ عورت راج کے ہونے والے چرچے کا غصہ بیچاری مظلوم عورت پر نکال دیتے ہیں۔ اور پھر یہ عور ت راج کے راگ الاپنے والے لوگ کسی آلے میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن اس مظلوم عورت کے حق میں ان کے منہ سے ایک جملہ تک نہیں نکلتا۔

کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر میں ایک آٹھ سالہ ننھی آصفہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ وہ بچی جسے ” میرا جسم میری مرضی ‘‘ کا مطلب بھی علم نہ ہو گا۔ اس کو ایسی بے دردی سے قتل کیا گیا جو نا قابل بیان ہے۔ لیکن حیرت تو اس بات پر ہے جب مجھے اس بچی کے لیے انصاف مانگتا کوئی ایک بھی عورت راج کا حامی نظر نہ آیا۔ روز خبریں آتی ہے کہ فلاں علاقے میں عورت کو ونی کر دیا گیا۔ مجھے تب بھی عورت راج کہیں نظر نہیں آتا۔ اکثر یہ بھی خبریں آتی ہیں کہ عورت کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ مجھے تب بھی عورت راج کہیں نظر نہیں آتا۔ اس تمام صورتحال میں عورت راج بھلا کس کام کا؟ شاہد یہ عورت راج بھی صرف سوشل میڈیا کی حد تک ہے۔ لیکن کا ش یہ عورت راج سوشل میڈیا پرہی مظلوم عورتوں کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرتی تو شاہد کچھ فائدہ حاصل ہو جاتا۔

اگر واقعی عورت اپنے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنی چاہئیے۔ نہ کہ وہ مرد پر راج قائم کرنے کے لیے اپنی آواز بلند کرتی پھرے۔ ہمیں اس معاشرے کو بگاڑ کی طرف لے کر نہیں چلنا چاہیے بلکہ اس معاشرے کو مہذب بنانا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کو جو مقام دیا ہے اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہئیے۔ اگر عورت اپنا راج قائم کرنا چاہئیے گی تو یہ معاشرے کے لیے خطرہ ثابت ہو گا۔ اس سے عورتوں کا ایک ٹولہ شاہد اپنا راج قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن ہزاروں لاکھوں عورتیں غیر محفوظ ہو جائیں گی۔ اگر کوئی تحریک چلانی ہی ہے تو وہ حکمرانی کی نہیں بلکہ برابر حقوق کی چلانی چاہے۔ جس کا فائدہ مرد، عورت اور اس معاشرے کو لازمی طور پر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).