امریکہ میں میڈیکل کی تعلیم


ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے اگلے روز امریکہ اور پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم میں فرق پر ایک عمدہ اور معلوماتی مضمون لکھا۔ میں گزشتہ تین سال سے اسی جھجنٹ میں پڑا ہوا تھا اور اب کہیں جا کر ریذیڈنسی کا فیصلہ ہوا ہے۔ مجھے پاکستان میں میڈیکل تعلیم حاصل کرنے اور کچھ عرصہ بحیثیت معلم میڈیکل کالجوں میں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے لہٰذا میں ان کے مضمون کے حوالے سے اپنے مشاہدات کی بنا پر کچھ اضافی معلومات فراہم کرنا چاہتا ہوں۔

پاکستان میں ڈاکٹر بننے اور پریکٹس کے قابل ہونے کے لئے پہلی جماعت سے کم از کم سترہ سال جب کہ امریکہ میں کم از کم تئیس سال لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ گریجویشن اور ہاوٴس جاب کے بعد آزادانہ پریکٹس کر سکتے ہیں لیکن امریکہ میں گریجویشن کے بعد ریذیڈنسی (جسے ہم سپیشلائزیشن بھی کہہ سکتے ہیں) کرنا لازم ہے۔

ہمارے ہاں میڈیکل کالج کا دورانیہ پانچ سال ہے جب کہ ان کے ہاں چار سال میں انڈر گریجویشن ہوتی ہے اور پھر چار سال میں میڈیکل کالج۔ پہلے چار سالہ دورانیے میں آپ میڈیکل کے شعبے کے علاوہ بھی مضامین پڑھ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے یہاں ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے انڈر گریجویٹ میں ریاضی اور انجینرنگ کے مضامین پڑھے ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ میڈیکل کا رخ کرتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کی ہر سطح پر شدید مقابلہ ہوتا ہے۔ امریکہ میں انڈر گریجویٹ میں کے لئے آپ کے SATسکور بہت اچھے ہونے چاہیئں۔ پھر میڈیکل میں داخلے کے لئے MCATنامی امتحان ہوتا ہے۔ پھر ریذیڈنسی کے لئے آپ کو USMLEکے کم از کم دو (ہم غیر امریکیوں کو تین) امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں بہت سے مضامین محض رٹوائے جاتے ہیں تاکہ امتحان پاس ہو جائے لیکن امریکہ کے امتحانات کی تیاری کے لئے بیٹھا تو پتہ چلا کہ دال کس بھاوٴ بکتی ہے۔ امریکی امتحانات میں صرف علم ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ علم کو استعمال کرنے کا ہنر بھی آنا چاہیے۔ سوال بلکہ سیدھے سادھے نہیں ہوتے اور جوابی مضامین کی وہاں کوئی جگہ نہیں، صرف Multiple۔ choice سوالات ہوتے ہیں۔ اکثر سوالات میں صرف تشخیص نہیں بلکہ اس مرض سے متعلق بنیادی معلومات دریافت کی جاتی ہیں لہٰذا سرسری مطالعے سے کام نہیں بنتا اور نظریات کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جو پاکستانی طالب علم میڈیکل کالج میں ہی نظریات کو سمجھ کر مطالعہ کرتے ہیں ان کو امریکی امتحانات میں زیادہ مشکل درپیش نہیں آتی۔ اس معاملے میں امریکی طالب علم ہم سے بہت آگے ہیں اور کچھ ہفتے پڑھائی کے بعد امتحان دے دیتے ہیں۔ ہمیں امتحانات کی تیاری میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ ان کے ہاں میڈیکل کالج کے دوران ہی یو ایس ایم ایل ای کے امتحانات دے دیے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہمارے اپنے سالانہ پراف سے جان نہیں چھوٹتی۔

امریکی میڈیکل کالج میں تعلیم بہت مہنگی ہے اس لئے وہاں زیادہ تر طالب علم سٹوڈنٹ لون لے کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اگلے کئی سال وہ قرض اتارنے میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس مہنگے سودے کے عوض انہیں اپنی مرضی کے شعبے میں ریذیڈنسی مل جاتی ہے جب کہ ہم غیر ملکیوں کو بہت سے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

ریذیڈنسی کے لئے مختلف ہسپتالوں میں اپلائی کرنا ہوتا ہے اور ان میں سے جو آپ کی درخواست پسند کریں، وہاں سے انٹرویو کی کال آتی ہے۔ مختلف شعبوں کے لوگ مختلف مقامات پر اپلائی کرتے ہیں اور ہر شعبے کے لئے مختلف ہسپتال وقف ہیں۔ میرا شعبہ پیتھالوجی ہے جس کی ریذیڈنسی امریکہ کے لگ بھگ ایک سو بیس ہسپتالوں میں کروائی جاتی ہے۔ مقبول ترین شعبہ میڈیسن ہے جس کی ریذیڈنسی پانچ سو سے زائد ہسپتالوں میں کروائی جاتی ہے۔ میڈیسن میں دلچسپی رکھنے والے سو سے زائد مقامات پر اپلائی کرتے ہیں اور خوش نصیب انہیں سمجھا جاتا ہے جنہیں پانچ سے زیادہ کالیں آئیں۔ چونکہ مقابلہ سخت ہوتا ہے تو اگر امتحانات میں آپ نے بہت اچھا سکور لیا ہو اور آپ نے کچھ عرصہ امریکہ میں انٹرن شپ کی ہو تو پھر انٹرویو کی کال آسانی سے آ جاتی ہے ورنہ کئی لوگ انتظار کی سولی پر لٹکتے رہتے ہیں۔ ہر سال ستمبر میں اپلائی کرنا ہوتا اور اکتوبر سے لے کر جنوری تک انٹرویو کا سیزن ہوتا ہے۔ امریکی طلبا کو بیس پچیس کالیں بھی آ جاتی ہیں اور ہم غیر امریکیوں کو چار پانچ پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

انٹرویو سیزن کے بعد مارچ میں پتہ چلتا ہے کہ آپ کو ریذیڈنسی ملی ہے یا نہیں اور کچھ دن بعد پتہ چلتا ہے کہ کس جگہ ملی ہے۔ یہ فیصلہ ہسپتالوں یا امیدوار نہیں بلکہ ایک کمپیوٹر Algorithmکرتا ہے۔ ہسپتال اپنی پسند کے امیدوواروں کی لسٹ بناتے ہیں اور امیدوار اپنی پسند کے ہسپتالوں کی۔ پھر کمپیوٹر انہیں آپس میں میچ کرتا ہے اور اگر دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو چنا ہو تو ایک ای میل آتی ہے کہ آپ کا نام میچ میں آ گیا ہے۔ کچھ دن بعد پتہ چلتا ہے کہ رقعہ کس جگہ کے نام نکلا ہے۔ میں نے بارہ جگہ انٹرویو دیا تھا اور نومبر دسمبر کے مہینے میں گیارہ مختلف ریاستوں کا سفر کرنا پڑا تھا۔ قسمت ایسی کہ جہاں رہائش تھی اس کے قریب ترین ہسپتال میں نام آ گیا۔ اس سال امریکی طلبا میں سے ننانوے فیصد میچ ہوئے جب کہ غیر امریکیوں میں ستاون فیصد طلبا میچ ہوئے۔ کئی احباب تین چار مرتبہ کوشش کے بعد اس مرحلے تک پہنچتے ہیں۔ ان مراحل سے گزرنے میں وقت اور پیسہ دونوں خرچ ہوتے ہیں۔ امریکی طلبا میڈیکل کالج سے نکلتے ہیں اور ریذیڈنسی میں قدم رکھتے ہیں جب کہ بیشتر پاکستانی طلبا گریجویشن کے دو یا تین سال بعد اس میدان میں اترتے ہیں اور وہ بھی کچھ مخصوص شعبوں میں۔ امریکہ میں ڈاکٹروں کا فقدان ہے اور دنیا بھر سے لوگ امتحانات دے کر انٹرویو کی سٹیج تک پہنچتے ہیں۔

اسی بارے  میں

امریکہ میں بچوں کی میڈیکل تعلیم کے بارے میں کچھ نکات

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed