واٹر بورڈنگ: ڈونلڈ ٹرمپ کا بےثمر خواب


\"aqdasامریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک حالیہ انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ اپنے دور حکومت میں\”واٹر بورڈنگ\”  کی اجازت دیں گے ، جوابا انہوں نے انتہائی پرجوش انداز میں کہا کہ \”واٹر بورڈنگ تو بہت معمولی ٹارچر ہے۔میں صدر بنتے ہی نہ صرف واٹر بورڈنگ کی اجازت دوں گا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ٹارچر کی اجازت دوں گا تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر سکیں\”۔انہوں نے دوسرے صدارتی امیدوار ٹیڈ کروز پر وار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بزدل ہیں اس لیے واٹر بورڈنگ پر کھل کر اپنے موقف کااظہار نہیں کررہے، مگر میں ڈرتا ورتا کسی سے بھی نہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سی آئی اے چیف کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اگر مستقبل کے صدراجازت بھی دیں گے، تب بھی وہ واٹر بورڈنگ جیسے غیر انسانی طریقے کو نہیں اپنائیں گے۔۔۔شاید وہ  ڈرتے ورتے ہوں گے-اور صدر اوباما تو شدید ڈرپوک انسان ہیں، دہشتگردوں سے اتنا ڈرتے ہیں کہ واٹر بورڈنگ کے ساتھ ساتھ اور بہت سی \”انہانسڈانٹیروگیشن ٹیکنیکس\”پر پابندی عائد کردی۔مگر بھلا ہو ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کا جن کے اس بیان کے بعدانہانسڈ  انٹیروگیشن ٹیکنیکس پر عائد پابندی پر ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ واٹر بورڈنگ اور اس طرح کے دوسرے تفشیشی طریقے مجرموں سے معلومات اگلونے میں کارآمد ہوتے ہیں، جبکہ بیشتر ماہرین کی رائے میں واٹر بورڈنگ اور انہانسڈانٹیروگیشن  ٹیکنیکس ٹارچر اور غیر انسانی سلوک کے زمرے میں آتے ہیں اور امریکہ میں ان کے استعمال پر عائد پابندی کو قائم رہنا چاہیے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ واٹر بورڈنگ اور انہانسڈانٹیروگیشن  ٹیکنیکس کیا ہیں؟ اور کیا ان کے استعمال سے واقعی اہم معلومات تک رسائی ممکن  ہے؟۔  واٹر بورڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس میں ملزم کو ننگا کر کے کےاس کے منہ پر کپڑا رکھ کر اس پراسطرح پانی ڈالا جاتا ہے کہ وہ سانس نہ لے سکے ۔جس شخص کے منہ پر پانی ڈالا جا رہا ہوتا ہے اسے سیدھا لٹایا جاتا ہے اوراس کے جسم کو حرکت بھی نہیں کرنے دی جاتی ، تاکہ اس کو لگے کہ وہ ڈوب رہا ہے۔ واٹر بورڈنگ ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہےاس کے نتیجے میں بہت سے جسمانی اور ذہنی مسائل پیدا ہوتے ہیں جن میں،دماغ  اور پھیپھڑوں کو نقصان،آکسیجن کی کمی، تڑپنا، اور فوری موت شامل ہیں۔ سی آئی کی جانب سےاب تک تین لوگوں پر اس تکنیک کو آزمایا گیا ہے  جن میں  خالد شیخ محمد ، ابوزبیدہ اور عبدالرحیم النشیری شامل ہیں۔ سی آئی اے کے کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کے سربراہ جے  روڈریگز نے اپنی کتاب \”ہارڈ میژرز\”میں لکھا ہے کہ خالد شیخ محمد پر 183 دفعہ، ابوزبیدہ پر83 دفعہ اور النشیری پر 2دفعہ واٹر بورڈنگ کی گئی۔ جے  روڈریگز کے مطابق خالد شیخ محمد نے اس تکنیک کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت دکھائی، مگر پھر بھی ہم نے اس کا استعمال جاری رکھا تاکہ ہم اس سے اہم معلومات اگلوا سکیں۔ یہ وہی جے  روڈریگزہیں جنہوں نے بعد میں ان تمام ٹیپس کو تباہ کر دیا جن میں سی آئی کے افسران ان تینوں کو واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنا رہے تھے، کیونکہ ان کو یہ ڈر تھا کہ اگر یہ ٹیپس عوام تک پہنچ گئیں تو لوگ اس پر بہت واویلا کریں گے ۔اب اگر بات کریں انہانسڈانٹیروگیشن  ٹیکنیکس کی تو ان میں 180گھنٹے تک بے خوابی، کتوں کے سامنے ڈالنا، ننگا کرنا، شدیداونچی آواز میں موسیقی سنوانا،اکڑوں کھڑے رکھنا، بھوکا پیاسا رکھنا اور کئی دنوں تک ایک ڈبے میں بند رکھنا  جیسی اذیت ناک سزائیں شامل ہیں-11/9کے بعد القائدہ کے ممبران اور دیگر مشتبہ افراد کو بلیک سائٹس پر منتقل کر کے ان ٹیکنیکس کے ذریعے ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔اس وقت بھی بہت لوگوں نے ان ٹیکنیکس کو غیر انسانی اورٹارچر قرار دیا مگر سی آئی اے کے افسران اس بات پر مصر رہے کہ یہ ٹیکنیکس ٹارچر نہیں ہیں اور ان کے استعمال سے بہت اہم معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔

مگر ایف بی آئی کے سابقہ تفشیشی آفیسر علی سفان ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ علی سفان ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اسامہ بن لادن اور القائدہ نیٹ ورک کی سرگرمیوں پر تب سے نظر رکھی ہوئی تھی جب امریکی حساس ادارے انہیں امریکہ کے لیے خطرہ تصور نہیں کرتے تھے۔علی سفان کو ایف بی آئی کی جانب سے بہت سے اہم دہشتگردوں سے تفشیش کرنے لے لیے بھیجا گیا جن میں ابوزبیدہ، فہدالقوسو،ابوجندل،محمدالقحطانی اور سلیم حمدان شامل ہیں۔ علی سفان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ دوران تفشیش تشدد نہیں کرتے تھے، زیر تفشیش افراد اگر عربی بولنے والے ہوتے تو ان کے ساتھ عربی میں بات کرتے تاکہ انہیں علی کے ساتھ اپنائیت محسوس ہو۔11/9 کے بعد جب ابوزبیدہ کو گرفتار کیا گیا تو علی سفان کو ان سے تحقیقات کرنے کے لیے بھیجا گیا۔علی سفان کے مطابق ابوزبیدہ زخمی حالت میں تھے مگر علی اور ان کے ساتھی نے ان کی تیماداری کی اور ساتھ ہی ساتھ تفشیش بھی جاری رکھی۔ ابوزبیدہ نے علی سفان کو خالد شیخ محمد کے بارے میں بتایا  کہ ان کا تعلق القائدہ سے ہے۔یہ واشنگٹن کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ اس سے پہلے خالد شیخ محمد کو القائدہ کا ممبر بھی نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر اس تفشیش سے یہ پتا چلا کہ خالد شیخ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔مگر اسی دوران امریکہ میں  انہانسڈانٹیروگیشن  ٹیکنیکس کی بات ہونے لگی اور سٹیوومچل کو ابوزبیدہ سے تفشیش کرنے کے لیے بھیجا گیا۔سٹیوو نے ابوزبیدہ پر جبر کرنے کی کوشش کی ، ابوزبیدہ کواونچی آواز میں موسیقی سنائی گئی،نیند سے محروم رکھا گیا، برہنہ کیا گیا لیکن پھر بھی سٹیوو کوئی خاص معلومات حاصل نہیں کر سکا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں علی سفان نے تشدد کے بغیر  اس سے بہت اہم معلومات حاصل کر لی تھی۔ بعد میں ابوزبیدہ کو مزید ٹارچر کیا گیا، انہیں 266 گھنٹوں کے لیے تابوت میں بند کیا گیا، 83 دفعہ واٹر بورڈنگ کی گئی مگر اس سب کے بعد بھی ان سے کوئی اہم معلومات حاصل نہیں جا سکیں، بلکہ بہت سی باتیں جو انہوں نے ٹارچر کے وقت بتائیں وہ بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔

اسی طرح ٖخالد شیخ محمد کو جب مارچ 2003 میں راولپنڈی سے گرفتار کرنے کے بعدافغانستان اور پھر پولینڈ کے جیل خانوں میں رکھا گیا اور تفشیش کے آغاز سے ہی ان پر تشدد کیا گیا۔ امریکی سینیٹ کی رپورٹ کے مطابق دوران تفشیش ان کا سر بارہا دیوار میں مارا جاتا جس کو\” والنگ\” کہتے ہیں، اس کے علاوہ کئی دنوں یا ایک ہفتے تک نیند سے محروم رکھا گیا،ریکٹل ری ہائیڈریشن،بازوسر پر باندھ کر کئی گھنٹے کھڑے رکھنا،ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے باوجود کھڑے رہنے پر مجبور کرنے جیسی اذیت سے گزارا گیا۔مگر اس کے باوجود ان سے حاصل کی جانے والی معلومات کے بے سود رہیں۔سی آئی اے کی ایک رپورٹ \”پریشیس ٹروتھس، سراؤنڈڈبائے باڈی گارڈآف لائز\” کے مطابق ٹارچر کے باوجود خالد شیخ محمد اہم معلومات کو چھپانے میں کامیاب رہا۔اور اس نے جان بوجھ کر ہمیں غلط معلومات فراہم کیں۔البتہ جب خالد شیخ محمدپر ٹارچر ختم کیا گیا اس کے بعد اس نے درست معلومات فراہم کیں۔علی سفان نے اپنی کتاب \”بلیک بینرز\” میں یہ انکشاف کیا کہ سی آئی کی جانب سے جو رپورٹ امریکی سینیٹ کو پیش کی گئی(جسے ٹارچر میموزبھی کہتے ہیں) اس کے مطابق خالد شیخ محمدنے واٹر بورڈنگ کے دوران  ہوز پاڈیلا یا عبداللہ المحاجر کے متعلق بتایا۔ عبداللہ المحاجرکے بارے میں کہا جاتا کہ وہ کیمائی ہتھیار \”ڈرٹی بم\” سے واشنگٹن میں تباہی پھیلانا چاہتا تھا  مگر اسے بروقت گرفتار کر لیاگیا۔علی سفان کے مطابق حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ انہانسڈانٹیروگیشن  ٹیکنیکس کی منظوری اگست 2002 میں دی گئی تھی، جبکہ عبداللہ المحاجر کو مئی 2002 میں گرفتار کیا گیاتھا، یعنی ان ٹیکنیکس کے استعمال سے ایک مہینہ پہلے۔

جب میڈیا  اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ان ٹیکنیکس پر سوال اٹھائے گئے توپھر امریکی سینیٹ میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا مقصد تھا کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ سی آئی ا ے کی یہ ٹیکنیکس کہیں ٹارچر تو نہیں، اور ان کی مدد سے کیا ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن کی مدد سے اہم دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا ہو ، یا کسی بڑے دہشتگردی کے واقعے سے بچا گیا ہو۔تحقیقات کے بعد  سینٹ کمیٹی نے  6700 صحفات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی جسے ٹارچر رپورٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انہانسڈانٹیروگیشن  ٹیکنیکس سے کوئی موثر معلومات حاصل نہیں کی ہوئیں۔بلکہ ٹارچر کی وجہ سے بہت سے قیدیوں نے غلط معلومات فراہم کیں ۔ شیخ الیبی کی مثال لیجئے-انہیں نومبر 2001 میں گرفتار کرنے کے ٹارچر کیا گیا۔ اسی ٹارچر کے دوران انہوں نے اعتراف کیا کہ القائدہ صدام حسین کے ساتھ مل کر ایٹمی ہتھیار بنا رہی ہے ۔ ان معلومات کو بنیاد بنا کر اس وقت  کے امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ کولن پاول نے  عراق پر حملے کے لیے اپنا کیس پیش کیا ۔ بعد میں یہ معلومات غلط ثابت ہونے پر جب الیبی سے استسفار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ٹارچر کے زیر اثر وہی بیان دیا جو امریکی سننا چاہتے تھے۔عراق پر حملے نے امریکہ کو ایک دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اسی جنگ کے دوران ابوبکر البغدادی کو پکڑا گیا ، اور کافی عرصہ جیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا گیا، جس کے بعد داعش ایک بھیانک حقیقت بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہے۔رپبلیکن سینیٹر جان مکین  کے مطابق سی آئے کی اور انہانسڈانٹیروگیشن  ٹیکنیکس سے امریکی سلامتی کو نقصان پہنچاہے۔جھوٹی معلومات کی وجہ سے غلط فیصلے کئی گئے جن کا فائدہ دہشتگردوں کو ہوا۔

علی سفان تفشیشی طریقہ کار کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دہشتگردوں کی بھی کمزوریاں ہوتی ہیں اور انہی کمزوریوں کا عقلمندی سے فائدہ اٹھا کر ان سے بہت کچھ اگلوایا جا سکتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ معصوم لوگ ٹارچر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور بعد میں متنفر ہو کر دہشت گردوں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ ایسا نہ صرف امریکہ میں ہوا ہے بلکہ ہماراملک بھی ایسی کئی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ بلوچستان ، سوات ، آزاد کشمیر اور دوسرے کئی علاقوں سے بے گناہ لوگوں کو تشدد کا بنایا جاتا ہے۔ کئی سال کے بعد یا تو لاش ملتی ہے یا پھر ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ گھر کے قریب پھینک دیے جاتے ہیں۔ اس سب سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اندھا دندھ لوگوں کو گھروں سے اٹھانے سے بہتر ہے کہ اپنی انٹیلی جینس کو فعال بنائیں۔اور جو لوگ جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں ان کو قانون کے مطابق سزا دیں۔قانون پر عمل ہو گا تو لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہو گا اور ان کی نفرت میں کمی آئےگی۔ورنہ یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا اور نہ جانے کتنے جوان تاریک راہوں میں مارے جائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ صاحب سے گزارش ہے کہ خواب دیکھتے رہیں ، خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ کیونکہ صدر تو وہ بنیں گے نہیں، البتہ کامڈین کے طور پر مجھے ان میں بہت صلاحیت نظر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments