کتاب کی آپ بیتی


23 اپریل کو اقوام متحدہ نے کتاب کا دن مقرر کیا ہے۔ اس کے حوالے آج میں کتاب کی آپ بیتی آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
میں ایک کتاب ہوں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پہلی دفعہ مجھے تقریباً تین ہزار سال قبل بنایا گیا تھا۔ پہلے میں کئی ہزار سال تک جیتی تھی لیکن اب میری عمر سمٹتے سمٹتے چند ماہ سے لے کر (درسی کتابوں کی صورت میں) چند سالوں تک محدود ہو چکی ہے بلکہ اگلے چالیس پچاس سالوں میں میرے جسمانی وجود کے مکمل طور پر ختم ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے اب میری پروقار جسمانی ساخت ایک بھیانک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔

جب صدیوں پہلے، پہلی دفعہ میرا جسمانی ظہور ہُوا تو ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کی طرح میں بھی اس نئی دُنیا میں بہت خوش تھی۔ مجھے بہت عزت و احترام کے ساتھ پڑھا جاتا تھا اور میری حفا ظت اور دیکھ بھال بھی خصوصی طور پر کی جاتی تھی۔ میرے وجود کے بنیادی حصے ’’کاغذ‘‘ کی ایجاد سے پہلے مجھے مختلف اشیاء (درخت، کھال وغیرہ کی پرتوں) پر انسانی ہاتھ سے لکھ کر مکمل طور پر تیار کیا جاتا تھا، اس لیے کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے میری بڑی قدر و قیمت تھی۔ بڑے بڑے بادشاہ میرے نایاب قلمی نسخوں کو اپنے خزانے کا حصّہ بنانا قابل فخر سمجھتے تھے۔ پھر کافی عرصہ بعد کاغذ کے ایجاد سے میری جسمانی ساخت کا اہم ارتقائی مرحلہ طے ہو گیا۔ اس کے بعد مشینی چھاپے خانے نے تو میری زندگی ہی بدل ڈالی اور میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں برق رفتاری کے ساتھ تیار ہو کر دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی۔ تاریخ، ادب، فلسفہ، شاعری، مذہب وغیرہ ہر طرح کا موضوع میری پسندیدہ غذائیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہر قسم کا بازاری اور چوری کا مال (یعنی سرقہ نویسی) بھی آسانی سے ہضم کر لیتی ہوں۔ کیوں کہ اپنی جان بچانے کے لیے حرام کھانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔

تاریخ کے تقریباً ہر دور میں تمام اقوام نےمجھ سے بے انتہا فائدہ اٹھایا یہاں تک کہ خالق کائنات نے بھی اپنا پیغام میری وساطت سے دُنیا کے کونے کونے میں پہنچایا لیکن ساتھ ساتھ مجھے سرعام ذلیل و رسوا کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ سابقہ ادوار (بلکہ موجودہ دور میں بھی) جب ایک طاقت ور قوم دوسری پر حملہ آور ہوتی تھی تو لوگوں کوجان سے مارنے کے ساتھ میرے وجود کو آگ لگانا یا پانی میں بہانا بھی ضروری سمجھا جاتا تھا تاکہ اپنے مخالف کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکے۔ آج میں صرف دُنیا کے اس انتہائی اہم خطے (تزویراتی گہرائیوں سے مالا مال) یعنی ریاستِ پاکستان کی سرکاری زبان (اُردو) میں اپنے عروج و زوال کی داستان پر مختصر روشنی ڈالوں گی۔

ستر سال قبل ریاستِ پاکستان نے بھارت سے آزادی حاصل کی تو چونکہ سرحد کے دونوں اطراف ایک جیسے ہی لوگ اور معاشرہ تھا اس لیے نئی ریاست کے قیام کے بعد کافی عرصہ تک مجھے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑی یعنی جو احترام میرا ہمسایہ ملک میں ہوتا تھا، اسی طرح اس نئی ریاست میں بھی لوگ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ میرے چاہنے والے اپنے پسندیدہ موضوعات پر مشتمل کتابوں کی تلاش کے لیے بازاروں کی خاک چھانتے رہتے تھے۔ پہلے زمانہ میں کاغذ سستا تھا اور لوگوں کے اخراجات بھی محدود تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور گھروں میں والدین بھی مجھے پڑھنے کے لیے باقاعدہ ترغیب دیتے تھے۔ اس لئے مجھے اپنی زندگی کا اہم حصّہ بنانے کی وجہ سے معاشرے میں مکالمہ کا عمل جاری و ساری تھا، جس سے لوگوں میں ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی تھی اور اپنے مخالف کے حوالے سے قوت برداشت کی بھی کمی نہیں تھی۔ ان سب عوامل کے ساتھ میری ترقی و فروغ میں وقتاً فوقتاً ریاست کی سرپرستی میں بھی کچھ ادارے کام کرتے تھے بلکہ ریاست کے اکثر حکمران اعلیٰ معیار کی کتابوں کے جستجو میں رہتے تھے اور مجھے حاصل کر کے اپنے ڈرائینگ روم میں سجانے سے پہلے مکمل طور پر پڑھتے بھی تھے اوران کی عملی زندگی میں اس کے کچھ مثبت اثرات ظاہر بھی ہوتے تھے۔

پھر وقت کے چلتے ہوئے پہیے کے ساتھ حالات نے پلٹا کھانا شروع کر دیا۔ معاشرے کے تقریباً ہر شعبے میں کمرشل ازم چھا جانے کی وجہ سے لوگوں کی ترجیحات تیزی سے تبدیل ہونے لگیں۔ جب میرے پہلے مالک اس دُنیا سے رخصت ہونے لگے تو اکثر نئے مالکوں نے مجھے ڈرائنگ رومز کی خوب صورتی سمجھتے ہوئے یا دوسروں پر اپنی علمی دھاک بٹھانے کے لیے مجھے شیلفوں میں سجائے رکھا۔

ایسے ہی کچھ عرصہ تک نئے مالکوں نے مجھے بھی اپنے گھروں کی زینت بنائے رکھا۔ میں اپنی اس حالت پر بھی مطمئن تھی کہ چلو پڑھنا نہ سہی سجاوٹ ہی سہی۔ لیکن اب نئے مالکوں کے مرنے پر پرانی کتابوں کے بیوپاری کو تلاش کیا جاتا ہے اورمول تول کرکے برائے نام دام لگا کر یا تول کر میری سربازار قیمت لگائی جاتی ہے اس طرح محض ایک دن میں ہی میں ڈرائنگ روم کی الماریوں سے نکل کر سڑک کنارے گٹر کے ساتھ واقع فٹ پاتھ میرا مقدر بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ عروج سے زوال تک کا یہ طویل سفر میں نے چند لمحوں میں طے کر لیا ہو۔ فٹ پاتھ پر پڑے رہنے کی وجہ سے اکثر میں اپنے نئے خریدار کے پاؤں کے نیچے بھی آ جاتی ہوں، جس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اپنی پیدائش کے وقت میں نے اپنے وجود کی قدرو قیمت کے اس بھیانک انجام کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔

ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں انٹرنیٹ میرے جسمانی وجود کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے۔ انٹرنیٹ نے مجھے جسمانی دور سے نکال کر روحانی دور (EBooks) میں پہنچا دیا ہے۔ میں اب ذہنی طور پر اس پر بھی تیار ہو گئی ہوں کہ چلو ایسے مزید کچھ عرصہ میں بنی نوع انسان کے ساتھ گزارسکوں گی۔ سوشل میڈیا نے جس طرح لوگوں کا سارا قیمتی وقت اپنے پاس گروی رکھ لیا ہے، اس نے میرے وجود کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔ آپ ٹیکنالوجی سے نہیں لڑ سکتے۔ جواباً اس پر میرا موقف یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو بھی تو میرے ذریعے ہی آپ نے حاصل کیا ہے تو پھر میری اتنی بے قدری کیوں ہے؟ جدید ٹیکنالوجی کے حامل ترقی یافتہ ممالک نے تو میری اصل قدر و قیمت کو ابھی تک اپنے سینے سے لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے اُن کے معاشروں میں ابھی تک ایسا کوئی طوفان بدتمیزی برپا نہیں ہو ا ہے جس طرح کتاب سے دوری کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا ہر شعبہ تیزی کے ساتھ اپنی پستی کی انتہاؤں کو چھونے لگا ہے۔ یہاں تو اخبار پڑھنے والے کو بھی ٹوک دیا جاتا ہے کہ بھائی کیوں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ ساتھ ہی ساتھ میری ریاست کے حکمرانوں نے بھی مجھ سے مکمل طور پر اپنا ناتا توڑ لیا ہے۔ میری ریاست اور معاشرے کے لوگ کتاب دوست ہونے کی بجائے کتاب دشمن ہونا قابل فخر سمجھتے ہیں۔

اب میری ریاست میں مجھے بہت کم تعداد میں تیار کیا جاتاہے جس کی وجہ سے میری فی کاپی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے میرا اکثر اصل خریدار (غریب اور متوسط طبقہ) مجھے خرید نہیں سکتا۔ شاید یہ معلومات مجھے پڑھنے والے کے لیے حیران کن ہوں کہ اس 20کروڑ کے ملک میں میرا کسی بھی طرح کا وجود (غیر نصابی) تین سو سے ایک ہزار سے زیادہ تیار نہیں ہوتا۔ میری کوئی بہت ہی خاص الخاص نسل ہی ہوتی ہے جس کی تعداد ہزار سے زیادہ چھپ جاتی ہے، اس لیے اب میری موجود جسمانی زندگی کا دارومدار صرف چند لائبریریوں کو ملنے والے سالانہ فنڈ پر منحصر ہے جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ بڑھنے کی بجائے مسلسل کم کیا جا رہا ہے۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے میرے کاروبار سے وابستہ لوگ اپنی دکانیں تیزی سے ختم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ کھانے پینے اور گفٹ آئٹمز کی دکانیں وجود میں آ رہی ہیں جن میں ہمہ وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).