آئین کی پاس داری کے بغیر امن اک خواب ہے


اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد کے کیفے ٹیریا میں چائے پیتے اِدھر اُدھر کی گفت گو کے دوران، میجر شہزاد نیر نے سوال داغ دیا۔
”کیا کسی کو اپنے نظریے کے لیے ہتھیار اٹھانا چاہیے“؟
کچھ سوال بظاہر سیدھے سادے ہوتے ہیں، لیکن اُن کا جواب سیدھا نہیں ہوتا۔ میں نے ایک لمحے غور کیا، اور دانش ور بننے کی اداکاری کرتے کہا، ”یہ تو ڈپینڈ کرتا ہے، کہ نظریہ کیا ہے۔ دیکھنا ہوگا، کہ اس ’نظریہ‘ میں ہتھیار اُٹھانے کی اجازت ہے“؟

کسی کے جواب کے پیچھے اُس کی معلومات، مطالعہ، مشاہدہ، تصورات، عقیدہ، یا نظریہ حیات؛ (یا کوئی اور نام منتخب کرلیجیے) سماجی و گروہی حالات، ان حالات کا مطالعہ کہ جن سے وہ اپنی رائے تشکیل دیتا ہے، یہ اور دیگر عوامل ہوتے ہیں۔ جواب دینے سے پہلے میرے ذہن میں طالبان تحریک (اگرچہ اسے ’تحریک‘ کہنے میں مجھے تامل ہے) کا حوالہ بھی گھوما، اور بدھ مت کی تعلیمات بھی۔ (جن سے میں سرسری واقف ہوں)

میجر شہزاد نیر خوب صورت دِل کے مالک ہیں؛ شاعر ہیں؛ عاشق ہیں اور صابر بھی (آہ! عاشقی میں صبر ہی نایاب ہوتا ہے) جہاں تک میں انھیں سمجھا ہوں، وہ انسانی معراج کے سفر کے مطالعے میں دل چسپی رکھتے ہیں، اور انسانیت کی معراج کو امن سے مشروط کرتے ہیں۔ ہر نیک دِل آدمی ’انسان اور انسانیت‘ کی بہ تری اور بقا کا سوچتا ہے؛ جس کا راستہ امن ہے۔

میجر صاحب نے اپنا سوال دُہرایا۔ ”نظریہ کیسا ہے، اس پر بات نہیں کرتے؛ سوال اتنا ہے، کہ کیا کسی کو اپنے نظریے کے لیے ہتھیار اُٹھانا چاہیے“؟
میں متذبذب ہوا، کہ آدمی منکر نکیر ہوتے ہیں۔ ”کوئی اپنے دفاع میں ہتھیار اُٹھاسکتا ہے“۔
”ٹھیک ہے۔ لیکن! اگر دفاع کی بات نہ ہو؛ کسی کو نظریے کی خاطر ہتھیار اُٹھانا چاہیے“؟
ایسے میں، میں نے بچاو کے لیے ہاتھ پاوں مارے، اکتوبر انقلاب کا دھندلا سا عکس، میرے ذہن کے پردے پہ اُبھرا۔ (اکتوبرانقلاب؛ لینن؛ ٹراٹسکی، ماو، چی گویرا و دگر کے واقعات و حالات زندگی۔ تاریخ کے ان اوراق سے بھی میری سطحی واقفیت ہے)

”کیا ہتھیار اٹھانا چاہیے“؟ جواب پر اصرار کیا گیا۔
میں نے تیقن سے کہا۔ ”اُٹھانا چاہیے“۔
مجھے محسوس ہوا، کہ شہزاد نیر کے چہرے پر تشویش کا ہلکا سا سایہ لہرا کے گزرگیا ہے۔ شہزاد نیر ہی کیا، مجھے خود اپنے جواب پر حیرت ہوئی تھی۔ شہزاد اور میں؛ ہم دونوں ہی اس ’اجنبی‘ سے ایک ساتھ متعارف ہوئے۔

امن اک خواب ہے۔ تعبیروں کی کھوج نے انسان کو ارتقا کی طرف دھکیل دیا۔ (یہ کسی عظیم فلسفی کا قول نہیں ہے، میرا شاعرانہ بیان ہے) ایک طرف اقبال ہیں، جو فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ کہتے ہیں، تو دوسری طرف مارکسسٹ کا بتلانا ہے، کہ فرد کچھ نہیں؛ موج بیرون دریا کی کل سے الگ کوئی حیثیت نہیں۔

ہمارے ایک دوست افراد کے بیچ میں اس قسم کے ”ڈرائنگ رُوم ڈائلاگ“ کو ”ذہنی مشق زنی“ کہتے ہیں؛ جب کہ ہمارے ایک اور دوست ”مشق زنی“ کہنے پر نالاں ہوتے ہیں، اور آپس کے اس قسم کے متفرق موضوعی مکالموں کو مخالف اذہان کی آپسی ”جفتی“ کہنے پر مصر ہیں۔ میں دونوں کی رائے کا احترام کرتا ہوں، کہ ’جمہوریت‘ پر ایمان لایا ہوں۔

شہزاد نیر نے یقین کرلینے کے لیے، پوچھا۔ ”اُٹھانا چاہیے“؟
”جی“! سامنے منکر نکیر بھی ہوتا، تو بھی میں تیار تھا۔
”کیوں“؟ شہزاد کا اگلا سوال تھا۔

”دیکھیے! وطن کے لیے بھی تو ہتھیار اُٹھایا جاتا ہے۔ آپ وردی پہنتے ہیں، کہ مجھے کاز کے لیے جان بھی دینا پڑی، تو دوں گا۔ ایسا ہی احوال دُنیا میں امن کا قائم کرنے کا نعرہ دینے والوں کا ہے۔ آپ چاہتے ہیں، ظلم کا خاتمہ ہو، استحصالی قوتیں کیا رضاکارانہ طور پر آپ کی بات مان لیں گی؟ نہیں ناں؟ ایسی صورت میں بھی ہتھیار اٹھانا درست ہے۔ اسی طرح کی ڈھیروں مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں“۔

دُنیا میں نہ جانے کتنے نظریے ہیں، یہ کوئی محقق ہی بتاسکتا ہے۔ ہر ایک کی نظر میں اس کا نظریہ راست نظریہ ہے۔ نظریوں کو پرکھنے کے لیے ہم ریاستی آئین کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ (گو کہ یہ لاحاصل مشق ہے) آئین کے بغیر کسی ریاست کا وجود ممکن نہیں۔ (کتابوں میں دیکھ لیجیے، کسی نہ کسی سوشل سائنٹسٹ نے ایسا کہا ہوگا) ’ریاست کا آئین ہی سب کچھ ہے‘۔ افراد، قبیلے، گروہ، اقوام؛ امن سے رہنے کے لیے آپس میں ایک معاہدہ کرتے ہیں، اس میں سب کے حقوق واضح کیے جاتے ہیں۔ اس معاہدے کو آئین کہتے ہیں۔ آئین سے بغاوت امن کا انکار متصور ہوتا ہے۔ (میری تعبیر کے مطابق؛ میری تعبیر، تفصیل طلب ہے) آئین کے تحت سب اداروں کا قیام عمل میں آتا ہے، یا (یا) اور آئین ان اداروں کی حدود متعین کرتا ہے۔

ایک عام شہری، ریاستی نمایندے، (اس میں سیاست دان بھی شامل ہیں) آئین و قوانین سے انحراف کرتا ہے، تو اسے آئین کے تحت قائم عدلیہ کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ عدلیہ آئین و قوانین کو مدنظر رکھتے اپنے فیصلے سناتی ہے۔ عدل یہ ہے کہ آئین و قوانین ہی مدنظر ہوں، نیتوں یا خواہشوں کے مطابق فیصلے نہ دیے جائیں۔

آئین کے تحت ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے۔ (ہم نے تو یہی سنا ہے) کوئی فرد، گروہ، ریاستی ادارہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی شہری، کسی گروہ، کسی یونین، یا سیاسی جماعت کو اس کے حق سے محروم رکھے، یا محروم کرنے کی کوشش کرے؛ خواہ وہ شخص، گروہ، ادارہ صداقت، دیانت، امانت کی کسی بھی معراج پر ہو؛ ولایت کی کسی بھی منزل پر ہو۔

جب ریاست کے نمایندے یا ادارے؛ شہری کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہوجائیں، تو شہری پر یہ شرط کیوں کر لاگو ہوگی، کہ وہ آئین و قوانین کی تابع فرمانی کرتا پھرے؟ ”ڈرائنگ رُوم“ یا ٹیلے ویژن چینلوں کے معتدل حرارت والے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر، ہم ”جتنی بھی ذہنی ”مشق زنی“ کرلیں؛ کسی بھی نظریے کے پرچارک بن کر کے مکالمہ کریں، انارکی کا بیج بویا جاچکا ہوتا ہے۔ نافرمانی کی تحریکیں جنم لے کے رہتی ہیں۔ معاہدہ ختم ہوجاتا ہے؛ ہتھیار اٹھا لیے جاتے ہیں۔ نظریوں کو اس میں کیا دوش دینا؟

پچھلے معاہدے کالعدم ہوجائیں، آپسی جنگ و جدل کے بعد ریاست کی سرحدیں جتنی سکڑتی یا پھیلتی ہیں، پھر سے شہریوں اور ریاست کے بیچ ایک اور معاہدے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کیوں کہ آئین کے بغیر کسی ریاست کا تصور ہی محال ہے۔ دانش مند اقوام انارکی، جنگ و جندل سے بچنے کے لیے معاہدوں (آئین) کی پاس داری پر یقین رکھتی ہیں۔

لیجیے! بات کہاں سے شروع ہوئی تھی، کہاں ختم ہوئی۔ خدا جانتا ہے، لکھنے والوں کے ساتھ یہی المیہ پیش آتا ہے۔ وہ لکھنے کچھ بیٹھتے ہیں، خیال کی رو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے۔ اب دیکھیے منکر نکیر کیا کہتے ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran