ہمارے جنسی ٹابوز


یہ جو ریپ کا شکار ہونے والی بچیاں اور بچے زندہ بچ جاتے ہیں کون ان کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ کن نفسیاتی مراکز میں ان کی مدد کی جاتی ہے۔ کون سے اسپتال میں ان کا جسمانی علاج ہوتا ہے۔ سو میں سے ایک یا شاید ہزار میں سے ایک جرم کی پولیس رپورٹ کٹتی ہے۔ چلیے کٹ گئی ۔ کسی ایک وفاقی یا صوبائی ادارے کا نام بتایے جہاں ان ریکارڈ ہوئے جرائم کا پچھلے دس سال کا ڈیٹا دستیاب ہو۔ جن جرائم کی رپورٹ کٹتی ہے ان میں بھی ہماری فرانزک نااہلی اور تحقیق میں سستی کے باعث شاید سو میں سے ایک مجرم سزا پاتا ہے۔ ذرا کوئی بتائے کہ پچھلے پانچ سال میں ایسے سزا یافتگان کا کوئی ریکارڈ ہے۔ کیا کسی بچوں کے یتیم خانے کے پاس جاننے کا کوئی ایسا طریقہ موجود ہے کہ کسی کو ملازمت دینے سے پہلے یہ جانا جا سکے کہ کبھی وہ اخلاقی جرائم میں ملوث تو نہیں رہا۔ ہماری نام نہاد “پولیس رپورٹ” کتنی قابل اعتبار ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اخلاقی اور جنسی جرائم سے نمٹنے کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر کتنا بجٹ ہے، کسی کو پتہ ہے۔ ہمارے اعداد وشمار ہمارا اپنا منہ چڑانے کے لیے تو ٹھیک ہیں پر ان کا موازنہ مغربی ممالک کے اعدادوشمار سے کر کے رائے معین کرنا ادنی ترین درجے میں بھی اعلی درجے کی حماقت کہلائے گی۔

مغرب کے بارے میں ہمارے باقی اوہام بھی بس اوہام ہی ہیں۔ وہاں خاندانی نظام انتہائی مستحکم ہے۔ فرق یہ ہے کہ خاندان کا ہر شخص بلوغت کے بعد اپنے افعال اور اپنی زندگی کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے  جس سے رشتوں پر غیر ضروری بوجھ سے آزادی ملتی ہے۔ ماں باپ بچوں سے اور بچے ماں باپ سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جیسا کہ کسی بھی اور جگہ۔ یہ فرق ضرور ہے کہ ایک تین کمروں کے گھر میں چار خاندان زندگی نہیں گزارتے۔ نندیں بھابھیوں سے اور ساسیں بہوؤں سے جوتم پیزار نہیں ہوتیں۔ رہی جنسی بے راہ روی تو وہ اتنی ہی ہے جتنی کسی بھی معاشرے میں ہوتی ہے۔ اس کو سمجھنے میں دو احتیاطیں ضروری ہیں ایک تو یہ کہ ہر معاشرے کے پیمانے مختلف ہیں۔ جو شے کراچی میں عام ہے وہ ٹنڈو اللہ یار میں نری فحاشی سمجھی جاتی ہے۔

یہی  مسئلہ ہمارا ہے ۔ ہم اپنے خود ساختہ معیار پر مغرب کو پرکھتے ہیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ تھما دیتے ہیں۔ یہ ہماری کم فہمی ہے، ان کی اخلاقی گراوٹ نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ ناقدین مغرب کے بارے میں ویسے ہی اندازے لگائے بیٹھے ہیں جیسے ہمارے ایک پیارے سفر نامی نگار کے بقول ان کے ایک دوست کے تھے۔ بڑی مشکل سے کسی طرح جوڑ توڑ کر کے جب وہ صاحب پہلی دفعہ انگلینڈ پہنچے تو جہاز سے اترتے ہی پہلا جملہ یہ نکلا “او میماں کتھے نیں؟” ۔ رہی بات اس کی کہ کیا وہ معاشرے اخلاقی جرائم سے پاک ہیں تو نہیں۔ ہر گز نہیں۔  اور یہی بات سمجھنے کی ہے۔ انتہائی تہذیب یافتہ انسان کے اندر بھی ایک درندہ ہے اور انتہائی مہذب معاشروں میں بھی اخلاقی کم مائیگی موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ اس کا اقرار کرتے ہیں۔ اس کو جرم سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے قدم اٹھاتے ہیں۔ دوسروں پر انگشت نمائی کرنے کے بجائے اپنے گریبان کی فکر کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں گنگا الٹی بھی بہہ رہی ہے اور  پوتر بھی ہے۔

ریپ کے حوالے سے اگر یہ سارے مفروضے اس قابل ہیں کہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے جائیں تو پھر سچ کیا ہے۔ وجہ کیا ہے اور علاج کیا ہے۔ سچ درحقیقت بہت سادہ ہے۔ پوچھیے ریپ کون ہوتا ہے۔ جواب ہے عورتیں، لڑکیاں، بچے اور بچیاں۔ ان میں کیا قدر مشترک ہے۔ کمزوری، نازکی، احساس عدم تحفظ ۔ پوچھیے ریپ کون کرتا ہے۔ مرد یا جوان لڑکے۔ ان میں کیا قدر مشترک ہے۔ طاقت، جنون، وحشت۔ بس اسی میں جواب چھپا ہے۔ پانچ دس ہزار سال کی تاریخ میں چند دہائیاں چھوڑ دیجیے تو قانونی، اخلاقی اور مذہبی ہر پیمانے پر طاقت کا راج رہا ہے۔ عورت اور بچے ملکیت کی چیز رہے ہیں۔ وہ برابر کے انسان کبھی نہیں ٹھہرے۔ یہ عدم توازن ہمارے ڈی این اے کے جینیاتی انتقال میں ہماری شخصیت کا حصہ ہے۔ آج کا انسان شعور کی سرحدیں وسیع کرنے کے باوجود ابھی بھی اس حصار سے باہر نہیں نکلا۔ اس عفریت کو رام کرنے کا واحد علاج شعور اور آگہی کی اور دوا ہے، تعلیم ہے، صنفی مساوات ہے۔ جہاں جہاں ان جہات میں کام ہوا ہے وہاں اخلاقی لحاظ سے بہتر معاشرہ وجود میں آیا ہے۔

اپنی بیٹی کے بارے میں سوچیے۔ کیا وہ بارسلونا، ٹورنٹو یا اوسلو کی سڑک پر رات گھر لوٹتے  زیادہ محفوظ ہو گی یا کراچی، دہلی یا چٹاگانگ کی سڑک پر۔ میرے لیے تو جواب مشکل نہیں ہے کہ ذاتی تجربے نے یہی سکھایا ہے۔ آپ بھی تعصب کی عینک اتار دیں تو متفق ہو جائیں گے۔ یہ اتفاق اپنی جگہ لیکن اب بھی دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں انسان کے اندر کا درندہ مکمل طور پر رام کر لیا گیا ہو۔ طاقت اور وحشت کے مظہر کی ایک انتہائی سفاک شکل ریپ ہے۔ مرض ہے، موجود ہے اور توانا ہے لیکن اس کی درست تشخیص علاج کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمیں مقبول عام مگر انتہائی غلط مفروضوں سے پیچھا چھڑانا ہے۔ معاشرے میں صنفی توازن قائم کرنا ہے۔ مرد اور عورت کا شانہ بشانہ  چلنا سکھانا ہے۔ پدر سری روایات کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ تعلیم کو عام کرنا ہے۔ جنسیات سے جڑے ٹابوز کو توڑنا ہے۔ بچوں کے استحصال کے کارخانے بند کرنے ہیں۔ عزت، عفت اور عصمت کے تصورات کو صرف عورت کے جسم زیریں سے وابستہ رکھنے والی سوچ کو بدلنا ہے۔ یہ سب کرنا آسان نہیں ہے، نشاۃ ثانیہ ہی سمجھیے لیکن کب تک اندھیروں میں جئیں گے۔ آپ اپنا چراغ روشن کیجیے، میں اپنی شمع جلاتا ہوں۔

پہلی تاریخ اشاعت: Apr 22, 2018

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad