ماں جی


ہمارے بچپن میں ناشتہ، لنچ یا پھر ڈنر نہیں ہوتا تھا۔۔۔ صبح، دوپہر اور شام کی روٹی کو تین وقت کا کھانا کہا جاتا۔۔۔ ڈبل روٹی، انڈے اور چائے کے چونچلے تو کسی فرد کے بیمار پڑنے پر ہی دیکھنے میں آتے۔۔صبح پرات بھر آٹے کے پراٹھے بنتے جو رات کے بچے ہوئے سالن کیساتھ شوق سے پیٹ بھر کر کھائے جاتے۔۔۔ ایک وقت میں ایک ہی سالن بنتا تھا۔۔۔. البتہ چھوٹے بھائی علاوالدین کے نخرے پر کبھی آلو کی بھجیا بن جاتی۔۔۔اسے بینگن اور کدو سے رغبت نہیں۔۔ عید تہوار یا پھر گرمی کی چھٹیوں میں خوب دھماچوکڑی مچتی۔۔ اکلوتے بھائی کے ہاں سات بہنیں آجائیں تو جانو رات شبرات اور دن عید ہوجاتا ہے۔۔۔ سارے بچے خوب اودھم مچاتے، نندیں ایک جگہ بیٹھی خوش گپیاں کرتیں۔۔ ایک سے زیادہ بہنوں کا یہی فائدہ ہے جہاں اکٹھی ہوئیں اپنے دکھ بانٹ لئے۔۔۔۔

ماں جی اس سارے ہنگامے سے بے نیاز، اپنی مگن میں گم باورچی خانے کی زینت بنی رہتیں۔۔ ان دنوں بھی ایک دسترخوان پر ایک پکوان ہی سجتا بس میٹھے کا اضافہ ہو جاتا۔۔۔۔ ماں جی کا اپنی نندوں کیساتھ ایک بھابھی کے بجائے ماں ایسا ہی تعلق تھا۔۔۔ دو بڑی نندوں کے سوا باقی پانچ کو پڑھایا لکھایا اور ان کی شادیاں بھی خود ہی کیں۔ اس لئے ہمارے حصے کا پیار بھی ان کی جھولی میں ڈال دیا۔۔۔ یہی وجہ بنی کہ ان کے درمیان نند بھاوج کا رشتہ وجود میں ہی نہیں آیا۔۔۔۔ نندوں کے بعد ان کے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بندوبست بھی اپنے ہی گھر کیا لیکن کیا مجال کبھی ماتھے پہ شکن آئی ہو۔۔ رشتوں سے پیار کا اظہار اس روز دیکھا جب کلمہ شہادت کی آواز ابھری، ماں جی کی چارپائی اٹھی تو بھانجوں، بھانجیوں کے نوحے ہم بہن بھائیوں کے ماتم پر غالب آگئے۔۔۔۔۔

ماں جی کا سبھاو عمر بھر کچھ ایسا رہا کہ گھر اور گھرداری کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ گھر سے تو جیسے انہیں عشق تھا۔۔۔۔ اپنے گھر سے باہر ایک رات قیام کرنا بھی ان پر بھاری گزرتا۔۔۔ جس گھر کی بنیاد حضرت احمد علی لاہوری اور اپنے وقت کے جید علمائے کرام نے رکھی ہو اس کی قدر و منزلت کوئی دل والا ہی جان سکتا ہے۔ گھر کا نقشہ بڑھایا تو کمروں کی چھتوں کی تیاری میں خود اپنے ہاتھ سے اینٹیں تک اٹھاتی رہیں۔۔۔۔ اسی لئے گھر بدلنے کی ہر تدبیر کو سرے سے رد کر دیتیں۔۔۔۔ بس یہی کہتیں ان اینٹوں میں برکت ہے۔۔ اسی برکت کے سبب یہ گھر چار پشتوں سے آباد ہے۔۔۔ رہی بات گھر والوں کی تو ماں جی نے اپنا آپ مار کر ایک ایک ذی نفس کی کچھ اسطرح خدمت کی کہ خود اپنا حال بے حال کر لیا۔۔۔ دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں ساس، سسر، نندوں اور سسرال کے ہر رشتے کی دلجوئی کرتے اپنے مجازی خدا کی بشری ضرورتوں سے بے نیاز ہوگئیں۔ ہوش آیا تو گاوں کا بھولا بھالا اور ماں جی کا ہیرو، شہری بابو بن چکا تھا۔۔۔۔۔

چودھری محمد صلاح الدین نارنگ منڈی کے ایک گاوں میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کا غدر مچا تو ہجرت کر جانے والے سکھوں کے ہمسایہ گاوں سے ایک دوات اور درانتی مال غنیمت کے طور پر لے آئے۔ گاوں بھر کو مسلمان کرنیوالے دین دار، دفعدار اللہ بخش کو خبر ہوئی تو اکلوتی نرینہ اولاد سے خفا ہو گئے۔ ننھے محمد صلاح الدین کو معافی اس وقت ملی جب والد سے حرام نہ کھانے کا عہد کیا۔ یہی وجہ تھی کہ پٹوار کا امتحان پاس کیا تو اس وقت کے لاہور کے چار پٹواریوں میں سے ایک ہونے کے باوجود صاف ستھری تنخواہ پر گزارا کیا اور والد کی نظر میں عمر بھر کیلئے سرخرو ہو گئے۔۔۔۔

شہر لاہور کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔۔۔ سو بولا۔۔۔ ماں جی نے اپنے ہیرو کے ہر شوق کا ساتھ دیا۔۔۔ سیر کو کہا سیر کو گئیں۔۔۔50 اور 60 کی دہائیوں میں پگڈنڈیوں کا سفر کرتے ملکہ کہسار مری سے ہوتے کاغان ناران تک گھوم آئیں۔ دل گھر میں ہی اٹکا رہا۔۔۔ سنیما دیکھنے کو کہا تو ساتھ ہو لیں۔۔ دھیان سسرال والے کیا کہیں گے، کی طرف ہی رہا۔ مال روڈ اس دور میں ٹھنڈی سڑک کہلاتی تھی اور لارنس گارڈن حسن و عشق کی آماجگاہ۔۔۔۔ ماں جی اپنے ہیرو کیساتھ قدم قدم تو چلتی رہیں لیکن زقند رفتار شہری بابو شاید ہواوں میں اڑنا چاہتا تھا اور ماں جی کے پاوں گھر کی دہلیز سے چپکے کھڑے تھے۔۔۔

یہی وجہ بنی کہ ماں جی گھر میں رہیں اور باہر کی دنیا گھومنے کیلئے بی سوکن آ گئیں۔۔۔۔ ماں جی کے دل نے شور تو خوب مچایا لیکن جسے خدا سمجھا اس کے خلاف حرف بد دعا زبان پر نہ آیا۔۔۔ زمانے کا سچ تو یہ ہے کہ آدمی کو باورچن نہیں ہیروئن چاہیئے ہوتی ہے۔۔۔۔ میکے والوں کو خبر ہوئی تو بیٹی کو لینے آ گئے۔۔۔۔والد نے کہا، آو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے بہت کچھ ہے۔۔۔ جواب دیا۔۔۔ آپ نے نصیحت کی تھی، اب تو اس گھر سے جنازہ ہی نکلے گا۔۔ والد ناراض ہو گئے تو ایک ہی سڑک پر چار گھر چھوڑ کر واقع میکہ کوسوں دور ہو گیا۔۔۔ ماں جی کسی کام سے نکلتیں تو والد کی گلی سے گزرنے کے بجائے لمبا چکر کاٹ کر آگے بڑھتیں۔۔۔۔

صبر کا دامن تھام لینے والے اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتے۔۔ماں جی نے بھی بچوں کی تعلیم کے حصول کو اپنی آئندہ کی زندگی کا مقصد بنا لیا۔۔ ہم بہن بھائیوں کی تعلیمی ضروریات کیلئے دن رات ایک کیا لیکن ان حالات میں بھی اپنے سسرال کی خدمت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ اسے خدمت کا صلہ کہیں یا قدرت کا انعام کہ ساس، سسر نے آخری وقت تک بیٹی سمجھا تو نندوں نے سگے اور اکلوتے بھائی کے بجائے ہمیشہ ان کی طرف داری کی۔۔۔۔لیکن۔۔

شراکت داری کا غم کیا کم تھا کہ ایک اور حادثے نے آ لیا۔۔۔

بڑے بھائی جان محمد ضیاالدین پائیلٹ اسکول وحدت کالونی میں ساتویں جماعت کے ہونہار طالبعلم تھے۔ اسکاوٹ تھے۔ گھر میں بڑا ہونے کے باعث سب کے لاڈلے تھے۔ ہم سب فیصل آباد شادی میں گئے تھے، وہ گھر رہے۔ صبح سویرے ایک حادثہ جاں کناں کی خبر ملی۔ واپس پہنچے تو کہرام مچا ہوا تھا۔ چودھری صلاح الدین کی پیلی کوٹھی پر موت بال کھولے ناچ رہی تھی۔ آہ و بکا کے شور میں پتہ چلا کہ بھائی جان ایک خوفناک ٹریفک حادثے میں جان کی بازی ہار گئے ہیں۔۔۔۔ جوان بیٹے کی ناگہانی موت نے ماں جی کے سارے خواب چکنا چور کر دیئے۔ موت کے خوف نے ایسا رنگ جمایا کہ پھر رہتی عمر تک ماں جی کے دل سے یہ کھٹکا نہ گیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3