ماں جی


ہم دونوں بھائی ڈی پی ایس ماڈل ٹاون میں داخل ہوئے تو ماں جی برقع پہنے ایم ٹی بی ایس کی لال بس پر سوار ہو کر ہمارے ساتھ اسکول جاتیں۔ مین گیٹ پر پہنچ کر سر پر ہاتھ پھیرتیں اور واپسی بس پر مسلم ٹاون گھر چلی جاتیں۔ دوپہر چھٹی کی گھنٹی ہونے سے پہلے ماں جی اسی آہنی گیٹ کے کونے سے لگی کھڑی ہوتیں۔۔۔۔ یہ سلسلہ ایک دو روز نہیں بلکہ سالہا سال چلتا رہا۔۔۔ ہم نویں دسویں میں پہنچ گئے، ہم جماعت ہمارا مذاق اڑاتے کہ ابھی فیڈر نہیں چھوڑا جو والدہ ساتھ آتی ہیں۔۔۔ ہم نے احتجاج کیا تو ماں جی اپنے معمول میں تھوڑی سی تبدیلی لے آئیں۔ اب وہ اسکول کے مین گیٹ کی بجائے ایچ بلاک بس اسٹاپ کی برجی کے نیچے کھڑی ہو جاتیں۔۔

1970 کی پوری دہائی اسی طرح گزری۔ گرمی، سردی کے ہر موسم میں ماں جی کے معمول میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔۔۔ ہماری پڑھائی کا اس حد تک خیال تھا کہ اسکول کی دیوار کے ساتھ جڑے حبیب بینک میں ماہانہ فیس جمع کرانا بھی ماں جی نے اپنے معمول کا حصہ بنا لیا۔۔ ان کا کہنا تھا کہ لائن میں لگنے سے پڑھائی کا حرج ہو گا۔۔۔ ڈی پی ایس اسکول سے ڈی پی ایس کالج میں آ گئے لیکن ہم دونوں بھائی کبھی اسکول، کالج سے لیٹ ہوئے نہ کبھی ہماری فیس جرمانے کے ساتھ بھری گئی۔ماضی کو اپنے بچوں کے بچپن سے ملاتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے کیونکہ گاڑی کی آسائش ہونے کے باوجود میں اپنے بچوں کو کبھی وقت پر اسکول نہیں پہنچا سکا اور اخبار کی نوکری میں وقت بے وقت تنخواہ ملنے کے باعث ہمیشہ جرمانے کے ساتھ بچوں کی فیس بھرنا پڑی۔

ماں جی نے دولت کی ریل پیل بھی دیکھی اور مٹھی بھر سکے بھی گنے۔ عیش و عشرت میں تکبر سے دور رہیں تو افلاس کی آزمائش میں وضعداری کا بھرم قائم رکھا۔ اچھے دنوں میں عید بکر عید پر شامیانے لگتے۔ دیگیں پکتیں۔خاندان بھر کی محفلیں سجتیں۔۔۔۔ والد بزرگوار کی جڑیں چونکہ دیہات سے جڑی تھیں لہذا ہمارا گھر باو ٹرین سے لاہور آنیوالے ہر مسافر کی منزل تھا۔ گاوں سے آئے ہر مہمان کیلئے دو چیزوں کا خاص اہتمام کیا جاتا۔ حقہ اور میٹھا۔۔۔والد صاحب گاوں کی جم پل ہونے کے باوجود سگریٹ، پان، بیڑی اور حقے جیسی نعمت اور خالص نسلی گالی دینے کی صلاحیت سے عمر بھر محروم رہے لیکن میں نے خوب استفادہ کیا۔ خوبصورت رنگ کے دھاتی تاروں اور موتیوں سے مزین حقہ بیٹھک میں بچھے تخت پوش کا لازمی حصہ تھا جبکہ صوفہ سیٹ کے سامنے دھری میز پر چاندی کا چمکتا سگریٹ کیس، جو بٹن دبانے سے کھلتا تو جلترنگ بج اٹھتا۔

دسترخوان پر حلوے کی بھری پرات ضرور ہوتی۔ اس زمانے میں بازار کے گلاب جامن یا برفی کی ٹکڑیاں خرید کر گھر لانا خاتون خانہ کے سگھڑ پن کی توہین سمجھا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ گاوں کے چودھری صاحب آئے۔اونچے طرے والی پگڑی، کھلے گھیر کا کرتہ اور بڑے جوڑ کا تہبند۔ کیا خوب وجاہت تھی۔ حقے پانی کا بندوبست کیا گیا۔ آو بھگت کیلئے باورچی خانے سے بیٹھک تک کے چکر میرے ذمے تھے۔باقی سب تو ٹھیک رہا لیکن جب موصوف نے حلوے کا پورا ڈونگا صاف کر دیا تو ہمارے ہاتھ ایک کھیل آ گیا۔ ہم بہن بھائیوں نے معزز مہمان کی موجودگی میں انکل ڈونگا کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ مہمان نے تو شاید سنا یا نہیں مگر باورچی خانے میں بیٹھیں ماں جی کے کانوں تک آواز پہنچ گئی۔ زندگی میں وہ واحد دن تھا جب ہم بہن بھائیوں کی ایک ساتھ دھلائی ہوئی۔۔۔۔ ان کا ماننا تھا کہ کھانے کی بے حرمتی رزق میں کمی لاتی ہے۔

وقت نے پلٹا کھایا تو ماں جی نے پاو بھر دودھ، دو چھٹانک چینی، دو چھٹانک ڈالڈا گھی خرید کر بھی گزارا کیا۔ ان دنوں گھر میں صرف ایک پراٹھا بنتا تھا جس پر ایک چمچ گھی لگایا جاتا۔ وہ پراٹھا چھوٹی بہن کے حصے میں آتا۔ دودھ کم ہونے کی وجہ سے ہم بڑے بہن بھائی دودھ کی جگہ انگریزی لفظ وائٹ، استعمال کرتے تاکہ چھوٹی دودھ پینے پر اصرار نہ کرے۔ ان حالات میں بھی ماں جی نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ خزاں نے کروٹ لی تو دیکھا ایک بار پھر بہار دستک دے رہی تھی۔

ماں جی کی وفا شعاری کا سبب تھا کہ ان کا ہیرو روشنیوں کے دیس سے واپس لوٹ آیا۔۔۔ وفا کی جوت جگی رہے تو شادی کا بندھن کیلنڈر کی تاریخوں کا محتاج نہیں رہتا۔ 90/91 کی بات ہے والد صاحب محترم دل کے عارضے میں پی آئی سی داخل ہوگئے۔ ماں جی نے داتا صاحب حاضری کی منت مانی۔ ڈاکٹر شہریار نے تسلی دی تو گاڑی کا انتظار کئے بغیر حاضری بھرنے نکل پڑیں۔ بالوں میں بھرپور چاندی آ جانے کے باوجود ماں جی تین پردوں والا برقعہ پہنتی تھیں۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے برقعہ پہیئے کی چین میں پھنس گیا۔ موٹر سائیکل نے قلابازی کھائی تو ماں جی کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔۔۔۔ ہیرو پی آئی سی میں تو خود یو سی ایچ بستر پر رہیں لیکن چند دن بعد ہی وہیل چیئر پر پی آئی سی جانا شروع کر دیا۔۔۔ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک والد صاحب بھلے چنگے ہو کر گھر واپس نہیں آ گئے۔ پھر آخر تک ساتھ اس طرح نبھا کہ دونوں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پہلو بہ پہلو جا سوئے۔۔۔۔

اولاد میں بیٹے، بیٹی کی تخصیص نہیں ہوتی۔ دونوں کا احساس یکساں ہوتا ہے۔ اس لئے اولاد کی خدمت تولی نہیں جاتی لیکن ماں جی نے جس انداز میں بہو سے ساس تک کا سفر طے کیا، قدرت نے انعام میں انہیں بہوئیں بھی ایسی ہی دیں۔ شکوہ شکایت دنیا کی زندگی کا حسن ہے مگر خدمت، عبادت سمجھ کر کی جائے تو مشیت ایزدی ہر تدبیر کو تقدیر بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماں جی کے رخت سفر کی تیاری میں ان کا آخری اور ابدی سوٹ بھی ان کی بہو عارفہ بیگم اور پوتی نحلہ نے خود تیار کیا۔۔۔۔۔

بچپن کی ایک رات ماں جی کے پیٹ میں اچانک درد اٹھا۔۔۔ ایسے میں وہ صرف کوکا کولا پیتی تھیں۔۔۔ کچھ دیر بعد افاقہ ہوا تو وہ سو گئیں۔۔۔ میں دبے پاوں ان کی پائنتی کھڑا ہو گیا۔ نجانے کیوں آنکھیں بھر آئیں۔ آنسووں کی جھڑی لگی تو ہچکی بندھ گئی۔ ماں جی اٹھیں مجھے سینے سے لگایا اور کہا بہادر بچے روتے نہیں۔ وہ رات مجھے بھول گئی تھی، ماں جی کو یاد تھی۔۔ بچھڑنے سے کچھ دن پہلے ماں جی کے پاس بیٹھا تو بچپن کی باتیں چھڑ گئیں۔ اس رات کا ذکر آیا تو ماں جی نے کہا اب تو بڑا ہو گیا ہے۔ چھوٹا تھا تو اچھا تھا۔۔ میں نے خفگی مٹاتے ہوئے کہا آپ بھی تو بستر پر لیٹی ہیں۔ سینے سے نہیں لگاتیں۔۔۔ماں جی خود کو سمیٹتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور پھر پتہ نہیں کتنی دیر ہم ایک دوسرے کے ساتھ چپکے رہے۔۔۔ لیکن ماں جی سچ کہتی تھیں میں بڑا ہو گیا یوں، چھوٹا تھا تو اچھا تھا۔۔ کم از کم رو تو لیتا تھا۔۔۔

ماں جی کے ترکے سے ان کے سر کی چادر اور ایک جوڑی جوتا اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ جوتا قدم قدم پر سیدھی راہ چلائے گا اور چادر تا روز محشر سر پر سایہ فگن رہے گی

انا للہ وانا الیہ راجعون


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3