ٹیگور صاحب کی چھوٹی سی فرمائش ۔۔۔


رات خواب میں ٹیگور آئےتھے، کہہ رہے تھےجوش صاحب مجھے چڑا رہےہیں کہ ہم دونوں پر پابندی لگی، لیکن ان کو مادری زبانوں کے ادبی میلے میں بلایا اور شامل کیا گیا اور مجھے نہیں کیا۔ مجھےکیوں نہیں کیا؟ جنوبی ایشیا کا واحد نوبل پرائز یافتہ ادیب ہوں۔ زبان بھی1971ء تک اسی ملک کی تھی۔ بھائی، سارا مسئلہ ہی اسی پر شروع ہوا تھا کہ نصاب میں مجھے پڑھانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ تم لوگ تو پیدا بھی نہیں ہوئے ہو گے۔

سردست ان لوگوں کے لیےمختصر سا حوالہ- جن کو مادری زبانوں کے ادبی میلے کا علم نہیں۔ یہ میلہ انڈس کلچرل فورم 2016 سے منعقد کرا رہا ہے ۔ میلے میں ملک بھر میں بولی جانے والی 18 سے 20 زبانوں کے 100 سےزائد ادیب ، دانشور، اور شاعر شرکت کرتے ہیں ۔ اور دو روز تک جاری رہنے اس میلے میں تقریبا 22 سیشن ہوتے ہیں ۔ جن میں ملک کی تمام زبانوں میں لکھے جانے والے ادب پر گفتگو ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال شاعری ، ناول اور افسانے کی 18 سے 20 کتابوں کی رونمائی بھی۔ میلے کے ایک سیشن ” ایک پیغام -کئی آوازیں” میں عظیم شعرا اور ادیبوں پر بات کی جاتی ہے ۔ اس سال تیسرے میلے میں جوش ملیح آبادی کے ساتھ شیخ ایاز پر بھی اس سیشن میں گفتگو کی گئی۔ جس کا حوالہ محترم ٹیگور نے دیا ۔۔۔۔

ایک لمحے کو تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دوں پھر میں نے ان کو بیٹھنے کو کہا، پانی رکھا۔ میں نے کہا دیکھیں مادری زبان کے میلے میں ادیبوں کی شمولیت کا فیصلہ چئرپرسن اور ایڈوائزی کمیٹی کرتی ہے ۔ میں یہ بات ان کے سامنے رکھوں گی اگر وہ سب مانے تو۔۔۔

میں نے ان کو یہ بھی بتایا کہ غور کیجیے، ہم کو جوش صاحب پر بولنے کے لیے کوئی نہیں مل رہا تھا ، نہیں نہیں اصل میں کوئی تیار نہیں تھا۔ ہمارے پانچ معتبر ادیبوں نے انکار کیا اس کے بعد حارث خلیق کی عنایت کہ انہوں نے جوش کی شخصیت، فن، مزاحمتی شاعری اور برصغیر کی آزادی کے لیے ان کی شاعری پر گفتگو کی۔ میں ان کی شکر گزار ہوں۔ تو دیکھیں آپ کے فن اور ادب پر بولنے کے کتنا تردد کرنا پڑے گا۔ کس سے کہیں گے؟ وہ ذرا مایوس ہونے لگے تو میں نے ان سے کہا لیکن آپ نے دیکھا ہم نے کر دکھایا نا۔ تو ان کے چہرے پردھیمی سے مسکراہٹ لوٹ آئی۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ہم نے آپ کی کتاب کوئی بیس سال پہلے پڑھی تھی لیکن اس وقت سر پر سے گزر گئی تھی۔ اس لیے اب دوبارہ پڑھوں گی اور معذرت بھی کی کہ ہم اتنے نا خلف ہیں کہ آپ کو پڑھتے نہیں۔

 اب انہوں نے جون میں آنے کا کہا ہے ۔ عالم بالا سے نیچے آنے کی اجازت دو ماہ بعد ملتی ہے ۔وہ تو یہ بھی کہہ رہے تھے میں چئیرپرسن صاحبہ اور ایڈوائزی کمیٹی سے خود بات کرلیتا ہوں، میں نے کہا سر ہماراچئیرپرسن ایک مرد ہے کیا آپ اپنی زمین کی ایک آوٹنگ ضائع کریں گے دوسرے ایڈوایزی کمیٹی کے 45 ارکان ہیں۔ آپ حساب لگائیں کتنے سال لگ جائیں گے، ہر ایک سے ملاقات اور شکایت کرتے پھر اور دیگر بہت پیچیدگیاں کہ وہ سب اپنی اپنی زبان کے حوالے سے رائے دیتے ہیں اور موضوع نام تجویز کرتے ہیں۔ مجھے طریقہ کار کے مطابق نام تجویز کرنے دیں ۔ کہنے لگے اچھا لیکن یہ بات کہ چئرپرسن مرد ہے سمجھ نہیں آئی ہمارے زمانے میں تو چئیرمین ہوتا تھا ، میں نے کہا سر ہمارے زمانے میں کچھ مرد ٹھیک ہیں کچھ کو ہم عورتوں نے ٹھیک کرلیا ہے ۔ اوراب آپ کی دعا سے ہم نے انسانی مساوات کا سبق سیکھنا شروع کردیا ہے ۔ دیر آِید درست آید

تھوڑا موڈ بحال ہوا تو میں نے پوچھا کچھ کھائیں گے، فکر نہ کریں توری پکی ہے اور چپاتی۔ کھا کر جائیے۔ بولے مضائقہ نہیں لیکن جوش تین ساڑھے تین بجے صبح کی سیر کو جاتا ہے میں اس کے نکلنے سے پہلے جا کر اس کو بتاتا ہوں ۔ میں نے کہا آپ ان کو بتائیں گے اور وہ کہیں گے ٹیگور آپ کی شہرت کی خواہش ابھی تک گئی نہیں۔ مسکرا کر کہنے لگے۔ کہنے دو اس کو تو میری اداکاری کرنے پر بھی اعتراض تھا۔

 پھر کہنے لگے پورا ایک مہینہ لگا تہمارے خواب میں داخلے کی اجازت ملنے میں، تمہارے خواب میں ہروقت نو انٹری کا بورڈ لگا رہتا ہے۔ میں تو کچھ اورہی سمجھا۔۔۔ جیسے ہمارے زمانے میں انگریز ہوٹلوں پر نو انٹری کا بورڈ لگاتے تھے۔ میں نے عرض کی– سرآپ کیسی بات کر رہے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں، میں بہت انسان اور ادب دوست انسان ہوں۔ کہنے لگے ابھی آپ نے کہا کہ آپ نے مجھے زیادہ نہیں پڑھا ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میرا پورا نام رابندرناتھ ٹیگور ہے، میں صرف شاعر نہیں افسانہ و ناول نگار بھی ہوں۔ میں نے اپنے مضامین کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور دنیا بھر میں لیکچر بھی دیے۔ میں نے مصوری بھی کی جن کی نمائش۔۔۔ میں نے کہا سر، سرتفصیلات پھر۔۔۔ جوش صاحب واک پر چلے جائیں گے۔ ہم پھر تفصیل سے بات کریں گے جب میں گیتانجلی، آپ کے افسانے اور یاد داشتیں پڑھ کر آپ کا انتظار کروں گی۔

ٹیگور صاحب ہماری جانب سے اگنور کیے جانے پر خفا ضرور تھے مگر امید ہے اب ناخوش نہیں گئے۔ میں سوچ رہی ہوں ہم ان کی قدر کرتے ہوئے ان کی تصانیف پڑھیں اور پڑھائیں تو کیا کوئی حرج ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).