پختونوں کی آواز پر کان دھریں!


لاہور میں پختون تحفظ موومنٹ کا پُرہجوم جلسہ اس حوالے سے بھی کامیاب تھا کہ اس کو روکنے کے لئے مقامی انتظامیہ اور فوج نے کافی متشددانہ ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن وہ اسے روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جلسے کے مقام پر لاہور انتظامیہ کی جانب سے گندا پانی گرادیا گیا، اس کے چند رہنماؤں کو پولیس نے گرفتار کرلیا، جنھیں بعد میں رہا کردیا گیا لیکن اس کے باوجود پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو ڈرایا ، دھمکایا نہیں جاسکا۔

یہ وہی لاہور ہے جہاں دس بارہ دن قبل خادم حسین رضوی نے دو ہفتے تک داتا دربار اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں کو اپنے احتجاجی دھرنے کے ذریعے یرغمال بنائے رکھا تھا جس کی وجہ سے عام شہریوں کو آمد و رفت میں خاصی مشکلات جھیلنا پڑیں۔ یہ وہی خادم رضوی ہیں جنھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اشتہاری مجرم قرار دیا تھا لیکن پنجاب حکومت نے اس کی گرفتاری سے نہ صرف معذوری ظاہر کی تھی بلکہ بعد ازاں اس کے خلاف قائم کئے جانے والے مقدمات بھی ختم کر دئیے گئے۔ گویا ریاست نے ایک ایسے انتہاپسند کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے جو اپنے جلسوں میں چیف جسٹس کو گالیاں دیتا تھا اور جس کی دشنام طرازی سے اہم سیاسی شخصیات بھی بچ نہیں سکی تھیں۔ لیکن اس کے مقابلہ میں منظور پشتین کے جلسے نہ صرف پرامن ہوتے ہیں بلکہ ان کے مطالبات قانون اور آئینِ پاکستان کے دائرے کے اندر ہیں۔ ہاں! ان کے جلسوں میں فوج کے کچھ اقدامات کے خلاف نعرے ضرور بلند ہوتے ہیں لیکن جب کسی پر بے انتہا ظلم اور تشدد کیا جائے، ان کے عزیز و اقارب کو فوجی آپریشنوں میں بے دردی سے مار دیا جائے، ان کے پیاروں کو یا تو غائب کرایا جائے اور یا انھیں ماورائے عدالت قتل کردیا جائے اور پھر ان کے جائز مطالبات کو درخور اعتنا بھی نہ سمجھا جائے بلکہ ان پر غیر ملکی ایجنٹ اور غدار جیسے الزامات عائد کر دئیے جائیں تو ان کا ردِ عمل بھی شدید تر ہوگا۔

سوات اور قبائلی علاقوں میں غلطیاں ہوئی ہیں اور اب ان غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مزید غلطیاں کی جا رہی ہیں۔ پی ٹی ایم کے خلاف بعض پختونوں کو لالچ اور دباؤ کے ذریعے کھڑا کیا جا رہا ہے۔ گویا دانستہ یا نادانستہ طور پر خانہ جنگی کے لئے حالات ہموار کئے جا رہے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کی بلیک آؤٹ جاری رکھیں۔ اس حوالے کچھ معتبر کالم نگاروں کے اردو اور انگریزی کالموں کو بھی اشاعت سے روک دیا گیا۔ اگر کسی مقتدر قوت کا خیال ہے کہ اس طرح وہ پختونوں کو اپنے جائز مطالبات سے پیچھے ہٹانے پر مجبور کرسکے گی یا وزیرستان اور سوات میں کی گئیں بے اعتدالیوں پر پردہ ڈال سکے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔استادِ گرامی وسعت اللہ خان نے اپنے ایک تازہ کالم میں اس پر کیسا شان دار تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اڑچن یہ ہے کہ پاکستانی عوام 2018ء میں مگر پاکستانی ریاست 1918ء میں رہ رہی ہے۔‘‘ حالات بدل چکے ہیں لیکن ہمارے مقتدرین کے خیالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکی ہے۔ پی ٹی ایم کی تحریک کے اثرات سوشل میڈیا میں جس سرعت سے پھیل رہے ہیں اور عالمی نشریاتی ادارے جس ترجیحی بنیاد پر اس کی سرگرمیوں کو کوریج دے رہے ہیں، اس کے نتیجہ میں پی ٹی ایم کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیاں نہ صرف بے اثر ثابت ہو رہی ہیں بلکہ وہ بہت مضحکہ خیز بھی لگ رہی ہیں۔

پی ٹی ایم کے مطالبات پر غور کرنے کی بجائے اس کے رہنماؤں کو بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اگر کسی کے دماغ میں مزید جبر اور تشدد کا منصوبہ پنپ رہا ہے تو اسے ذرا کھلی آنکھوں اور دیدۂ دل کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اسے معلوم ہوسکے گا کہ 1971ء میں ریاستی جبر کے کیا نتائج نکلے تھے؟ اسے بلوچستان کے حالات کو مدنظر رکھنا چاہئے جہاں عوام کی محرومیاں ختم کرنے اور انھیں ان کا حق دینے کی بجائے جب ان کے خلاف گولی کا استعمال کیا گیا تو اس کے نتیجے میں وہاں آزادی کی تحریک نے جنم لیا اور ابھی تک وہاں صورتِ حال معمول پر نہ آسکی ہے۔ جب کسی مقتدر ریاستی قوت کے ذہن میں روزِ اوّل سے یہ خناس سما گیا ہو کہ بلوچ اور پختون کبھی محب الوطن نہیں ہوسکتے اور ان کے ساتھ ہمیشہ آہنی ہاتھ سے نمٹنا چاہئے تو پھر اس کے ناخوش گوار نتائج بھی بھگتنے پڑیں گے۔

کسی ریاست کے لئے سکیورٹی ادارے بہت اہم ہوتے ہیں لیکن اس سے زیادہ اہم عوام اور ان کے درمیان محبت کا رشتہ ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں کئے گئے فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں تو پختون عوام اور سکیورٹی اداروں کے مابین محبت اور احترام کا رشتہ مزید مضبوط ہونا چاہئے تھا لیکن آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ فوج کے خلاف ایسے نعرے بلند ہو رہے ہیں جن کا پہلے تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا ایسے نعرے لگانے والوں کا دماغی توازن درست نہیں ہے؟ کیا وہ ان کی حساسیت سے نابلد ہیں؟ نہیں، اس طرح کے نعرے اگر لگتے ہیں تو ان کے پیچھے ٹھوس وجوہ کار فرما ہوتی ہیں۔ جب کسی پر ظلم ہوتا ہے، کسی کو روزانہ کی بنیاد پر چیک پوسٹوں میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے امتیاز کے بغیر ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہو، بے گناہ لوگوں کو جبری گم شدگی کا شکار بنایا جاتا ہو، ماورائے عدالت قتل و غارت کا بازار گرم کیا جاتا ہو اور گھروں اور تجارتی مراکز کو دانستہ طور پر مسمار کیا جاتا ہو، سیکڑوں تعلیمی اداروں کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جاتا ہو تو اس کا کوئی شدید ردِ عمل تو ہوگا۔ منظور پشتین کہتے ہیں کہ وزیرستان میں روز اتنا خون بہایا جاتا تھا، اتنے جنازے اٹھتے تھے کہ ہم قیامت آنے کی دعائیں مانگتے تھے۔

منظور پشتین کے کارواں میں روز بروز لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ خوف و ہراس اور ریاستی جبر کے شکار لوگوں میں ایک نئی جان پڑ رہی ہے۔ معلوم اور نامعلوم افراد کا خوف ذہنوں سے نکل رہا ہے اور اس کے نتیجے میں پشتون ہی نہیں بلکہ ظلم اور جبر کے شکار بلوچ اور ہزارہ بھی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسلام آباد، بلوچستان، پشاور اور اب لاہور میں منعقد ہونے والے جلسوں نے ثابت کردیا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے قدم سے قدم ملا رہی ہے۔ اگلا جلسہ وہ کراچی اور سوات میں کرنے والے ہیں۔ کراچی اور سوات میں بھی مظلوموں کی تعداد کم نہیں۔ اس لئے ان کی تحریک تیزی سے ایک ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کے محب الوطن لوگوں کو ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ کیوں کہ جبر کے شکار صرف پختون نہیں ہیں، ملک بھر میں عوام کا استحصال ہو رہا ہے، ان کے آئینی حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔ اس تحریک کو ’’پاکستان بچاؤ تحریک‘‘ کی شکل میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ کیوں کہ ریاستِ پاکستان اس وقت کچھ جابر قوتوں کا یرغمال بن چکی ہے۔ عوام کے ساتھ جتنا ظلم اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے، اتنی ہی زیادتیاں جمہوری حکمران بھی کرتے رہے ہیں۔ دونوں فریق قوم اور ملک کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے اسیر ہیں۔ انھیں عوام کی محرومیوں اور مشکلات کا کوئی احساس نہیں۔

پختون تحفظ موومنٹ کی وجہ سے لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے۔ انھیں پتا چل رہا ہے کہ وہ ریاستی ادارے جن کی منصبی ذمہ داری انھیں امن و تحفظ دینا ہے، وہ اس کی آڑ میں انھیں دربدر کر رہے ہیں۔ اس وقت وطن عزیز میں قحط الرجال کی سی کیفیت طاری ہے۔ جن ریاستی اداروں کے مظالم کے خلاف پختون اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، نہ ان کی طرف سے پختونوں کے مطالبات پر کان دھرا جا رہا ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی مدبر اور سیاست دان مظلوموں کی اشک شوئی کے لئے قدم آگے بڑھا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں صورتِ حال بگاڑ کی خطرناک حدود میں تیزی سےداخل ہو رہی ہے۔ کوئی ریاستی قوت اگر یہ سوچ رہی ہے کہ وہ مناسب وقت پر جارحانہ انداز میں اس تحریک کے بخئے ادھیڑ دے گی تو اسے اس خام خیالی سے باہر نکل جانا چاہئے۔ اس کے نتائج نہایت بھیانک ہوں گے۔ معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے گا اور وطن عزیز کی سالمیت کے لئے حقیقی خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ ہم پہلے سے ہی ہر طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، اس لئے مزید خطرات پیدا کرنے کی بجائے پختون تحفظ موومنٹ کے ساتھ مل بیٹھنا چاہئے۔ ان کی شکایات سننی چاہئے اور جائز مطالبات کے حل کے لئے فوری اقدامات اٹھانا چاہئیں۔ ان کا کوئی مطالبہ اگر ناجائز ہے تو انھیں دلیل اور شفقت سے سمجھانا چاہئے۔ ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی ہے۔ ان کے جائز مطالبات کو نظر انداز کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے آپ کے زر خرید تجزیہ کار، پی ٹی ایم کی مخالفت کرنے والے تنخواہ دار اور آپ کی جذباتی محبت میں حد سے نکلنے والے لوگ ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنیں گے۔

ریاست کی مثال ماں کی سی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی مشکلات اور شکایات پر ان کے خلاف محاذ نہیں کھولتی، اپنے بچوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش نہیں کرتی، ان پر غیرملکی ایجنٹ کا الزام نہیں لگاتی بلکہ شفقت اور محبت سے ان کی دکھ بھری آواز پر کان دھرتی ہے۔ ان کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھتی ہے۔ ان کے دکھوں کا مداوا کرتی ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی اس وقت حقیقی ماں کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اسے سوتیلی ماں کا سا سلوک بند کرنا چاہئے۔ پختون سچے پاکستانی ہیں، وہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے عزت اور وقار سے جینے کا حق مانگتے ہیں۔ جس طرح ملک کے دوسرے شہریوں کو آئین پاکستان کے تحت ہر طرح کے شہری حقوق حاصل ہیں، اسی طرح وہ بھی ان حقوق کے طلب گار ہیں۔ ان کی آواز پر کان دھریں ایسا نہ ہو کہ ان کے مطالبات کوئی اور رُخ اختیار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).