کابل دھماکہ اور اس کی مذمت


افغان پولیس کے مطابق دہشتگردوں نے کابل میں کم از کم 69 انسان شہید کر دیے ہیں۔ ان میں کم از کم 22 عورتیں اور 8 بچے بھی شامل ہیں۔ 120 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ افراد اپنا قومی شناختی کارڈ لینے کے لئے لائن میں لگے ہوئے تھے کہ خودکش بمبار نے ان کو نشانہ بنا دیا۔ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں افغان حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افغان اپنا شناختی کارڈ بنوا کر ووٹر لسٹ میں شامل ہوں اور اپنی مرضی کا حکمران منتخب کر سکیں۔ طالبان نے اس دہشت گردی سے اظہار لاتعلقی کیا ہے اور داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ اس نے 100 سے زائد افراد کو ہلاک کیا ہے۔

مرنے والوں میں ایسے بچے شامل تھے جو قریبی سکول میں پڑھنے جا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر ایک ایسی ننھی بچی کی لاش کی تصویر گردش کر رہی ہے جس کا گلابی سکول بیگ اس کے سر کے نیچے رکھا ہوا ہے اور وہ اس کے خون سے سرخ ہے۔ آریانا ٹی وی نے کابل میں ہونے والے مظاہروں کی کوریج کی ہے جن میں مشتعل افراد حکومت مردہ باد اور طالبان مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔

بغلان میں ایک دوسرے ووٹر رجسٹریشن سینٹر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں پانچ افراد شہید ہوئے اور چار زخمی۔ انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک منظم مہم کے تحت ووٹر رجسٹریشن سینٹروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

آئیے دہشتگردوں کی اس کارروائی کی ویسے ہی مذمت کریں جیسی قندوز میں بمباری کی مذمت کی گئی تھی۔ ادھر تو یہ عام لوگ ووٹر لسٹ میں نام درج کروانے کھڑے ہوئے تھے اور ان میں کوئی اعلی افغان فوجی یا حکومتی اہلکار بھی نہیں تھا۔ یعنی ادھر کی جانے والی دہشت گردی کا کسی اگر مگر سے جواز نکالنے کی کوشش کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ بے گناہ کو جو بھی مارے، خواہ افغان آرمی چند دہشت گردوں کی وجہ سے درجنوں بچوں کو نشانہ بنائے یا طالبان یا داعش وغیرہ عام شہریوں کو خودکش دھماکے کا نشانہ بنائیں، اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔

عام جنگوں میں یہ اصول ہوتا ہے کہ شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ صرف دشمن کے فوجی ٹھکانوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ مگر گوریلا جنگ میں جب دہشت گرد کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے عام شہریوں کے بیچ میں چھپ جائیں اور ان کی الگ فوجی تنصیبات نہ ہوں تو پھر اس ظلم کی جتنی ذمہ داری قندوز پر بمباری کرنے والے کی ہوتی ہے، اتنی ہی ذمہ داری عام لوگوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والوں کی بھی ہے۔

افغان بھی کیا بدقسمت قوم ہیں۔ ادھر سوویت حملے کے دوران کابل محفوظ رہا لیکن سوویت یونین کی شکست کے بعد جب افغان سرداروں نے اس پر اپنی حکومت قائم کی تو کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ نائن الیون کے نتیجے میں امریکی حملے کے بعد بھی یہی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ امریکی اور ان کی اتحادی افغان حکومت اتنے شہریوں کو نہیں مار رہی ہے جتنے طالبان اور داعش کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اگر دہشت گرد بندوق کے زور پر افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کا ساتھ دینے والے بھی ان کے سپورٹرز میں شامل سمجھے جائیں گے۔ افغانستان میں بندوق کے زور پر امن نہیں آ سکتا ہے۔ جب بھی آئے گا مذاکرات کے ذریعے آئے گا اور انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت ہی چلے گی۔ تو آئیے کابل میں ہونے والی اس دہشت گردی کی بھی اسی شدت سے مذمت کریں جیسی قندوز کے مدرسے پر حملے کی کر رہے تھے اور انتخابات کے ذریعے افغان شہریوں کے پرامن طریقے سے اپنا حکمران منتخب کرنے کے حق کی حمایت کریں اور فتنہ پیدا کرنے والوں سے اظہار برات کریں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar