مہکتے پھولوں کو مت مسلیں


آج دل بہت اداس، دُکھی اوربوجھل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج جب میں دوپہر کو گاڑی لے کر نکلی، تو شدید گرمی تھی۔ گاڑی کا اے سی آن کیا تاکہ کچھ سکون نصیب ہو۔ پاکستان میں شدید گرمی میں اے سی بہت بڑی نعمت ہے۔ گاڑی پر سفر جاری تھا، کچھ دیربعد اشارے پر گاڑی رکی تو ایک معصوم سی پھول جیسی لڑکی دیکھی، یہ خوبصورت لڑکی سڑک پر ہاتھ میں گلاب کے پھول لئے ہوئی تھی، یہ معصوم پھول جیسی بچی تپتی دھوپ میں گاڑیوں کے پاس آکر رکتی، چند پیسوں میں گلاب کے پھول فروخت کرتی اور پھر دوسری گاڑی کی طرف بڑھ جاتی۔

میں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ پھول نہیں توڑنے چاہیے، کیونکہ ان میں بھی زندگی ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان پھول توڑتا ہے، تو یہ مر جاتے ہیں۔ پھولوں کی بھی دلچسپ کہانی ہوتی ہے، کچھ احساس سے لبریز انسان یادوں کو زندہ رکھنے کی خاطر اپنی کتابوں میں پھول رکھتے ہیں، پھول اس کائنات میں زندگی کی دلکشی کی علامت ہیں۔ لیکن شاید پاکستان میں پھول اداسی اور دکھ کی علامت بن گئے ہیں اس معصوم سی بچی کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہورہا تھا۔ تپتی دھوپ، ہاتھوں میں لال رنگ کے پھول، چہرے پر اداسی اور آنکھوں میں غم سجائے پیاری لڑکی میری گاڑی کے شیشے پر آکر رکی، میں نے شیشہ نیچے کیا، پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی نازک ہاتھ اور ہاتھوں میں پھول، سر پر لال دوپٹہ چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھیں، ان آنکھوں میں جیسے ہزاروں خواب بسے ہوں، اس طرح کے پھول آپ کو مجھے ہم سب کو کسی نہ کسی جگہ روز دکھائی دیتے ہیں۔

میں نے اس کا نام پوچھا۔ بچی نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا، میڈم میرا نام سونیا ہے۔ سونیا نے بتایا اس کی عمر آٹھ سال ہے اور گزشتہ تین سالوں سے وہ پھول بیچ رہی ہے۔ سونیا کی کہانی سنی تو دل کو شدید دھچکا لگا اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ پھر خیال آیا کہ سونیا کا تعلق تو غریب گھرانے سے ہے شاید، اسی لئے کسی سرکاری یا نجی اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتی، اسی لئے سڑکوں پر پھول بیچ کر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی ہے۔

اس چھوٹے سے واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں غریب اور بے سہارا بچوں کا پرسان حال کیا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی لاکھوں سونیا ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب آتے ہیں اصل ایشو کی طرف۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں چائلڈ لیبر ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جیسے یورپ اور امریکہ وغیرہ میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے پالیسی بنائی جاتی ہیں۔ اور ان پالیسیوں پرعملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ بظاہراس دنیا میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے، بہت سے یورپی ملکوں نے پسماندہ ممالک سے تجارت پر اس لیے پابندی لگائی ہوئی کہ وہاں زیادہ تر اشیاء کی تیاری میں چائلڈ لیبرکا استعمال کیا جاتا ہے۔ چائلڈ لیبر، فورسڈ لیبر یا پھر پچوں کو سڑکوں پر بے بسی کی تصویر بنا کر مٹی اور دھول کھانے کے لیے چھوڑنا، یہ تمام روایات غیر قانونی اور غیر انسانی ہیں۔

ہمارے ہاں سونیا جیسے پھول جگہ جگہ سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں نظر آتے ہیں۔ کہیں خون جما دینے والی سردی تو کہیں شدید ترین دھوپ کی تپش برداشت کرتے، گھروں میں کام کاج کرتے، کہیں چوڑیاں بناتے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان بہترین اور معیاری ”فٹبال“کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے، فیکٹریوں میں فٹبال کو تیار کرنے میں معصوم بچے بھی کام کرتے ہیں، یعنی یہاں بھی چائلڈ لیبر قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی 1996 میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق اُس وقت تین اشاریہ تین ملین بچے چائلڈ لیبر کا شکار تھے اور پھر ILO کے 2012 میں ہونے والے سروے کی بات کی جائے تو یہ تعداد بارہ اشاریہ پانچ ملین یعنی ایک کروڑ پچیس لاکھ تھی۔

چائلڈ لیبر میں بڑھتا اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ اس کے علاوہ دو لاکھ ساٹھ ہزار بچے گھروں میں کام بھی کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا 61 ملین بچے پاکستان میں چائلڈ لیبر کا شکار تھے۔ امریکی نشریاتی ادارے CNN کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے دس ممالک جو چائلڈ لیبر کے حوالے سے بدترین صورتحال کا شکار ہیں، ان میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ یعنی یہ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کا بھی شکار ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے پاکستان میں چائلڈ لیبر مزید غیر محفوظ ہو کر رہ گیا ہے۔

اب انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی رپورٹ کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشاء میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے بنگلہ دیش پہلے، بھوٹان دوسرے، بھارت تیسرے، مالدیپ چوتھے، نیپال پانچویں، پاکستان چھٹے اور سری لنکا ساتویں نمبر پرہے۔ اس کا مطلب ہےپاکستان میں اطمینان بخش صورتحال نہیں ہے۔ پاکستان میں چائلڈ لیبرکے قوانین کو بہتر بنانے اور اس پر عملدرآمد کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس ملک میں چائلڈ لیبر کی وجوہات پر بات کی جائے تو پاکستان اور دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔

پاکستان میں تقریبا 60 ملین سے اوپر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جس ملک میں ایک عام انسان ایک ماہ کے 13، 600 روپے کماتا ہو اور اس کے گھر کھانے والے 6 سے 7 افراد ہوں تو وہ بچوں کو کیسے تعلیم دے سکتا ہے؟ اس رقم میں دو وقت کی روٹی نصیب ہوجائے تو غنیمت ہے۔ اس غربت کا پچھلے ستر سال میں کوئی حل نہیں نکالا جاسکا۔ کچھ والدین بچوں کو مزدوری پر لگاتے ہیں، جن بچوں کو مزدوری نہیں مل پاتی، تو والدین انہیں کسی انجان سڑک کے سگنل پر بھیک منگواتے ہیں، والدین یہی سوچتے ہیں چلو گزارا تو چلتا رہے گا!

اس طرح کی سوچ، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے لاکھوں پھول جیسے بچوں کا مستقبل برباد ہورہا ہے۔ جس عمر میں بچوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہیے تھی، اس عمر میں ان معصوموں کے ہاتھوں میں گاڑیاں صاف کرنے والا کپڑا ہوتا ہے، جن نازک کاندھوں پر کتابوں سے مزین بستے ہونے چاہیے، ان کمزور کاندھوں پر گھر کی ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں، خواب دیکھنے والی آنکھیں بھٹہ پر کام کے دوران بس دھول، گرمی اور دھوپ ہی دیکھتی ہیں۔ پھر ایسے میں بہت بڑا ظلم یہ کہ غریب ماں باپ امیر گھروں میں اپنے معصوم سے بچوں کو تھوڑی سی اجرت میں مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ ایسے میں ان معصوموں کے ساتھ جو ہوتا ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

پاکستان میں بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری این جی اوز بچوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہیں۔ ہر سال یہ این جی اوز لاکھوں ڈالرز بٹورتی ہیں۔ مگر حالات نہیں بدلتے۔ جس رفتار سے بہتری ہونے چاہئیے اس رفتار سے نہیں ہورہی۔ پاکستان کی حکومت اور این جی اوز کو چائلڈ لیبر کے حوالے سے سنجیدہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ معصوم بچوں کے مستقبل کا سوال ہے، وہ بچے جنہوں نے بڑے ہوکر اس ملک کو سنوارنا ہے۔ ایسی پالیسی مرتب کی جائیں کہ یہ پھول مرجھا نہ پائیں، انہیں تعلیم دی جائے، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ عمران علی جیسا کوئی درندہ زینب جیسے پھول کو مسل نہ سکے۔ بچے کسی بھی قوم کا حقیقی مستقبل ہوتے ہیں۔ انہیں خوبصورت پھولوں نے بڑے ہو کر گھنا درخت بننا ہوتا ہے۔ اس لئے بچوں کے تحفظ اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے انفرادی سطح پر ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ۔ پاکستان اس کائنات میں ایک خوبصورت باغ ہے، اس لئے اس باغ میں رنگا رنگ پھول سلامت رہنے چاہیے۔ بچے محفوظ رہیں، بہتر اور معیاری تعلیم حاصل کرتے رہیں گے تو پاکستان حسین رنگوں سے شاد باد رہے گا۔ بچے خوشی، محبت اور زندگی کی علامت ہیں۔ جس ملک میں بچے خوش و خرم اور چہکتے مہکتے رہے ہیں، وہاں خوشیاں قہقہے لگاتی اور ناچتی نظر آتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).