یورپ میں دراڑیں پہلے سے زیادہ گہری


بی بی سی کے لیے کروائے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے یورپی باشندے سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک آج سے دس سال پہلے کے مقابلے پر زیادہ منقسم ہو گئے ہیں، اور 47 فیصد کا خیال ہے کہ ان کے معاشرے پہلے کے مقابلے پر کم برداشت رکھتے ہیں۔

آئی پی ایس او ایس موری کی جانب سے 27 ملکوں میں کیے جانے والے رائے عامہ کے اس جائزے میں یورپ کے 66 فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کے ملک پہلے کے مقابلے پر ‘زیادہ منقسم’ ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرح ہے۔

سروے کے مطابق اس کی بنیادی وجہ سیاست ہے، جس کی 44 فیصد افراد نے نشان دہی کی۔

برطانیہ میں نصف شرکا نے کہا کہ پناہ گزینوں اور مقامی باشندوں میں تقسیم ہے۔

اسے برطانیہ میں سماجی تقسیم کی سب سے عام وجہ قرار دیا گیا، اس کے بعد دوسرے نمبر پر مذہب (47 فیصد) نسل (41 فیصد)، اور سیاسی نظریات (40 فیصد) رہے۔

سروے

دنیا بھر کے لوگوں میں سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ تین چوتھائی شرکا متفق ہیں کہ ان کا معاشرہ منقسم ہے، جب کہ تین چوتھائی کہتے ہیں کہ معاشرہ ‘بہت منقسم’ ہے۔

اس کے علاوہ واضح اکثریت سمجھتی ہے کہ معاشرے میں پائے جانے والی دراڑیں مزید گہری ہوتی جا رہی ہے، اور ان کا ملک دس سال قبل کے مقابلے پر آج زیادہ منقسم ہے۔ صرف 16 فیصد لوگوں نے کہا کہ آج اختلافات پہلے کی نسبت کم ہیں۔

سروے

یورپی صورتِ حال

سروے میں 11 یورپی ملکوں کے لوگوں سے رائے لی گئی۔ ان میں بیلجیئم، فرانس، جرمنی، ہنگری، اٹلی، پولینڈ، روس، سپین، سویڈن، سربیا اور برطانیہ شامل ہیں۔

سربیا میں سب سے زیادہ منقسم معاشرے کا تاثر تھا، جہاں 93 فیصد لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ معاشرہ پہلے کی نسبت زیادہ منقسم ہے۔

آئی پی ایس او ایس موری کے گلین گاٹفرائیڈ نے بتایا: ‘تمام یورپ میں یکساں رجحان نظر آیا، اور ہر چار میں سے کم از کم تین شرکا نے کہا کہ ان کا معاشرہ بہت زیادہ یا خاصا منقسم ہے۔’

سروے

گاٹفرائیڈ کے مطابق ‘یورپی یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں واقع خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی ماحول ہو سکتا ہے یا پھر دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کی ایک لہر جسے ہم نے براعظم کے مختلف حصوں میں دیکھا ہے۔ یا پھر دونوں رجحانات آپس میں منسلک ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ سجھتے ہیں کہ لوگ کشیدگی محسوس کر رہے ہیں۔’

برطانیہ کی طرح جرمنی اور فرانس میں بھی لوگوں نے پناہ گزینوں اور مقامیوں کے درمیان کشیدگی محسوس کی۔

سروے

گاٹفرائیڈ نے کہا: ‘طبقے اور آمدنی کی بنیاد پر ہونے والی کشیدگی اب بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں ایک تہائی لوگ امیر اور غریب کے درمیان کشیدگی دیکھتے ہیں، جب کہ ہنگری میں لوگوں کو امیروں اور غریبوں کے درمیان کشیدگی پناہ گزینوں اور مقامیوں کی نسبت کم نظر آتی ہے۔’


سربیا کے امیر اور غریب

بی بی سی سربیئن سروس کے دیان اناستاسیوک

سربیا کی 80 فیصد آبادی مسیحیوں کے آرتھوڈاکس فرقے سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے وہاں مذہبی یا نسلی تفریق کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ تاہم سربیا میں امیر و غریب کی آمدن میں جتنا فرق ہے، اتنا یورپ کے کسی اور ملک میں نہیں ہے۔

ملک کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 20 فیصد امیر ترین 20 فیصد غریب ترین سے دس گنا سے بھی زیادہ کما رہے ہیں۔ یورپی یونین میں یہ شرح 5-1 ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں سربیا میں اس خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔

سیاسی طور پر بھی ملک منقسم ہے۔ اس کی بڑی وجہ کوسووو ہے جو 2008 میں الگ ہو گیا تھا۔ سربیا کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی شرط یہی تھی کہ وہ کوسووو کی خودمختاری کو تسلیم کرے۔

بہت سے سربیائی یورپی یونین میں تو شامل ہونا چاہتے ہیں، لیکن وہ کوسووو کو بھی واپس لینا چاہتے ہیں۔


لاطینی امریکہ میں حریفانہ انداز

لاطینی امریکہ کے ملکوں ارجنٹینا، برازیل، میکسیکو، چلی اور پیرو میں سروے کیا گیا۔ وہاں کے کم از کم تین چوتھائی لوگوں نے سیاسی اور معاشی خلیج کی نشان دہی کی۔

سروے

کشیدگی کا احساس سب سے زیادہ ارجٹنینا میں نمایاں تھا، جہاں 92 فیصد شرکا نے کہا کہ ملک ‘بہت’ یا ‘خاصا’ منقسم ہے، جب کہ 40 فیصد نے کہا کہ اس تقسیم میں پچھلے دس برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کم از کم 70 فیصد ارجنٹینیائی باشندے سیاسی بنیادوں پر منقسم ہیں۔

سروے

گاٹفرائیڈ نے کہا: ‘یہ شرح بہت، بہت بلند ہے۔ ملیشیا کو چھوڑ کر ارجنٹینا میں سیاسی اختلافات سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔’

تاہم 68 فیصد یورپیوں کی نسبت صرف 59 فیصد لاطینی امریکی سمجھتے ہیں کہ ان کے معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم گذشتہ دس برسوں میں گہری ہوئی ہے۔


ارجنٹینا میں گہری سیاسی خلیج

صدر موریسیو میکری نے 2015 کے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ‘لا گریتا’ سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے۔ اس سے مراد ملک میں پائی جانے والی خلیج ہے جو ان سے قبل بائیں بازو کی کرچنر کی انتظامیہ میں گہری ہو گئی تھی۔ تاہم میکری کو اس میں کچھ زیادہ کامیابی نصیب نہیں ہو سکی، بلکہ الٹا یہ تقسیم مزید گہری ہوتی دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ حالیہ سروے میں 40 فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کا ملک پہلے کے مقابلے پر زیادہ منقسم ہے۔

بیونس آئرس یونیورسٹی کے ماہرِ عمرانیات مارٹن گینڈلر کہتے ہیں: ‘یہ بات دلچسپ ہے کہ لوگ اس خلیج کو حالیہ سمجھتے ہیں۔ درحقیقت یہ ملک ابتدا ہی سے کئی قسموں کی خلیجوں اور رقابتوں پر قائم ہے۔’


دنیا میں برداشت بڑھ رہی ہے؟

گاٹفرائیڈ کہتے ہیں کہ سروے میں کئی مثبت رجحانات بھی سامنے آئے ہیں۔ دو تہائی شرکا نے اتفاق کیا کہ دنیا بھر کے لوگوں میں اختلافات کی بجائے مشترکہ چیزیں زیادہ ہیں۔

‘صرف ایک محدود تعداد میں لوگوں نے کہا کہ دوسرے پس منظر یا ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملنے جلنے سے کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔’

ایک تہائی نے کہا کہ ایسے میل جول سے بعض اوقات غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن ان پر قابو پایا جا سکتا ہے، جب کہ 40 فیصد نے کہا کہ اس سے بہتر تفہیم اور احترام کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔

74 فیصد کینیڈین شہریوں نے کہا کہ ان کا معاشرہ مختلف نقطۂ نظر سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں خاصی برداشت رکھتا ہے، جب کہ 64 فیصد چینیوں اور 64 فیصد ملائی باشندوں کا بھی یہی خیال تھا۔


”ہم آہنگ’ چین؟

یووین وُو، بی بی سی چائنیز سروس

دوسرے ملکوں میں سیاسی، مذہبی یا صنفی تقسیم پر گرما گرم بحثیں یا مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن چین میں اس قسم کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

میڈیا پر سخت حکومتی کنٹرول کی وجہ سے کسی قسم کی معنی خیز یا کھلی سیاسی بحث نہیں ہو سکتی۔ اس کے نتیجے میں اکثر اوقات سیاسی تقسیم دب کر رہ جاتی ہے۔

اپسوس موری کے سروے میں صرف سات فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کا معاشرہ ‘بہت منقسم’ ہے۔

سابق صدر ہو جنتاؤ نے ‘ہم آہنگ معاشرہ’ تشکیل دینے کا عزم ظاہر کیا تھا جہاں لوگ قانون کی پاسداری کرتے ہوں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوں۔ تاہم سینسر اب بھی ایسی پوسٹیں سوشل میڈیا سے ہٹا دیتا ہے جس کے بارے میں حکومتی اہلکاروں کا خیال ہو کہ وہ قابلِ اعتراض ہیں۔

پھر بھی خود چینی قیادت کو چین میں پائی جانے والی معاشی تفریق کا احساس ہے۔ صدر شی جن پنگ نے ‘چینی خواب’ کو تازہ کرنے کا عزم کیا ہے لیکن اس کے ثمرات ہر ایک تک نہیں پہنچے۔


Crossing Divides season logo


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp