عاصمہ جہانگیر اور نفسیاتی دہشت گرد


دل اور دماغ ہے کہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ عاصمہ جہانگیر اب ہم میں نہیں رہیں۔ مقام افسوس ہے کہ کچھ لوگ کبھی بھی اس عظیم خاتون کو تنقید کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آ رہے۔ میرے نزدیک عاصمہ جہانگیر پر تنقید کرنے والے نفسیاتی دہشت گرد ہیں۔ اور یہ نفسیاتی دہشت گرد حقیقت سے لاعلم ہوکر بس سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ خودکش بمبار ابھی بھی ہم میں موجود ہیں جو لوگوں کی نفسیات پر ایسا حملہ کرتے ہیں کہ لوگ اس دہشتگردی سے بچ نہیں سکتے۔

یہ بات بھی سچ ہے کہ ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن پر عاصمہ جہانگیر کی زندگی کے مختلف پہلو ان کی وفات کے بعد آشکار ہوئے۔ یہ عاصمہ جہانگیر تھی کہ جس نے کشمیر میں بے گناہ اور نہتے کشمیریوں کا خون بہانے والے مودی کو اس انداز میں للکارا کہ شاید اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ عاصمہ جہانگیر نے مودی کو لومڑ تک قرار دے دیا۔ کیا ہمارے سیاستدانوں اور نفسیاتی دہشت گردوں میں اتنی ہمت ہے کہ وہ مودی کو اس طرح سے جواب دیں جیسے عاصمہ جہانگیر نے دیا۔

جب عاصمہ جہانگیر کی تصاویر بال ٹھاکرے کے ساتھ منظر عام پر آئیں۔ تو ان پر انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو غدار اور ہندو جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا۔ لیکن آفرین ہے عاصمہ جہانگیر پر کہ ہر الزام کو مسکراتے ہوئے برداشت کرتی تھی۔ شاید عاصمہ جہانگیر کو اس بات کا علم تھا کہ یہ نفسیاتی دہشتگر ذہنوں میں دہشت پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرنا جانتے۔ حالانکہ کہ عاصمہ جہانگیر نے اپنی زندگی میں ہی نفسیاتی دہشتگردوں کے سامنے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ مجھے اقوام متحدہ کی جانب سے بھارت کے شہر ممبئی اور گجرات میں جاری مذہبی فسادات کے اوپر رپورٹ بنانے کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس دوران عاصمہ جہانگیر نے وہاں پر بہت سارے لوگوں سے ملاقات کی جن میں بال ٹھاکرے بھی شامل تھے۔

کاش ان نفسیاتی دہشت گروں کو عا۔ ہمارے کچھ سیاستدان بھی نفسیاتی دہشتگردی کا شکار ہیں کیونک ہمارے کچھ عاصمہ جہانگیر کی وہ تصاویر بھی دکھائی جاتی جن میں وہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے شکار افراد سے ملاقات کر رہی ہیں۔ لیکن نہیں لوگوں نے اگر عاصمہ جہانگیر میں کچھ ڈھونڈنا چاہا تو وہ منفی پہلو تھے۔ کیا بات ہے اس عظیم عورت کی جو اپنے مخالفین کے ایسے الزامات پر بس مسکرا دیتی تھی۔ اور عاصمہ جہانگیر کی یہی مسکراہٹ آج بھی ان نفسیاتی دہشت گردوں کو کھٹک رہی ہے۔

ہمارے کچھ سیاستدان بھی نفسیاتی دہشتگردی کا شکار تھے۔ اور عاصمہ جہانگیر کو اسلام دشمن اور متعصب خاتون قرار دینے والے سیاستدانوں پر بھی جب مشکل وقت آیا تو انہوں نے عاصمہ جہانگیر کا سہارا لیا۔ اور اپنے مقدمات کے لیے عاصمہ جہانگیر کو وکیل کیا۔ یہاں تک کہ عاصمہ جہانگیر موت سے کچھ دیر قبل بھی ایک سیاست دان سے ہی گفتگو کر رہی تھیں۔ اور انہیں بھی اس بات کا علم تھا کہ عاصمہ جہانگیر ہی ہیں جو انہیں اس مشکل سے نکال سکتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر مظلوم طبقے کی آواز بنیں۔ عاصمہ جہانگیر نے عورت کو اس کے حقوق سے متعلق آشنا کیا۔ اور اسی مقصد کے لیے ڈنڈے بھی کھائے۔

بہت سارے کیس تھے۔ جو وکیل لڑنے سے معذرت کر لیتے تھے لیکن عاصمہ جہانگیر نے ان کیسز کو بھی لڑا۔ عاصمہ جہانگیر بہت با اصول خاتو ن تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنی طویل زندگی میں بھی وہ اپنے موقف پر قائم رہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی ساری زندگی مظلوم طبقے کے لئے جنگ لڑتے گزار دی لیکن یہ نفسیاتی دہشت گرد ہیں جنھیں عاصمہ جہانگیر سے مقابلہ کرنے کے لئے مذہب اور وطن کو ہتھیار بنانے کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا۔ عاصمہ جہانگیر نے تو ان نفسیاتی دہشت گردوں کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی زندگی گزار دی۔ اور وہ اس بات کی کوشش بھی کرتی رہیں کہ اپنی قوم کو بھی ان نفسیاتی دہشت گروں سے بچنے کا ہنر سکھا سکیں۔

یہ نفسیاتی دہشت گرد بس اتنا جانتے ہیں کہ عورت مرد کی غلام ہے
گھر سے باہر نکلنے والی عورت بری ہے
آزاد خیال انسان مذہب کی توہین کر رہا ہے
ملکی اداروں میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف بولنے والے غدار ہیں
اور ایک ہندو کے ساتھ ملاقات کرنے والے اسلام دشمن ہیں

عاصمہ جہانگیر تو ہم میں سے چلی گئی لیکن یہ نفسیاتی دہشت گرد ابھی بھی ہم میں موجود ہیں اور ان سے چھٹکارا پانے کے لئے ہمیں کسی اور عاصمہ جہانگیر کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ میرے نزدیک عاصمہ جہانگیر تو بس ایک ہی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).