ایک خاتون نے کاسمیٹکس کی سلطنت کیسے کھڑی کی


بہت سی خواتین کے لیے کسی ڈپارٹمنٹ سٹور سے میک اپ کا سامان خریدنا ایک مشکل تجربہ ہوتا ہے، اور جو ہورگن ان خواتین سے الگ نہیں ہیں۔

49 سالہ جو ہارگن کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اکثر بڑا مشکل ہو جاتا ہے جب مختلف برانڈز کے اپنے اپنے الگ کاؤنٹرز یا رعایت ہوتی ہے جن کے لیے وہاں چند خواتین موجود ہوتی ہیں جو اپنی ہی پراڈکٹس کے لیے اسرار کرتی ہیں۔

تو اگر کسی گاہک کو کئی مختلف برانڈز کی اشیا خریدنی ہیں تو انھیں ایک کاؤنٹر سے دوسرے کاؤنٹر پر جانا پڑتا ہے۔

بازار جہاں خواتین گاہک بھی اور دکاندار بھی

کم جونگ اُن میک اپ فیکٹری کیوں جا پہنچے؟

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک مشکل تجربہ ہوتا ہے۔‘

میک اپ کا سامان خریدنے کے لیے جانے سے فکرمند ہونے اور پھر اس کے لیے کچھ نہ کرنے کی بجائے 1997 میں جو ہورگن کو ایک کاروبار کا خیال آیا اور انھوں نے ایک کاسمیٹک کی دکان کھولی جہاں بڑے پیمانے پر مختلف برانڈز کی اشیا مکمل طور پر میرٹ پر فروخت کی جاتی ہیں۔

آسٹریلوی شہر میلبورن کی رہائشی جو ہارگن نے معروف فرانسیسی کاسمیٹکس کمپنی لاریئل میں بطور پراجیکٹ مینیجمنٹ ملازمت چھوڑ کر ’مکہ‘ کے نام سے اپنی ہی کمپنی کھول لی۔

اپنے کاروبار کے لیے پیسوں کی خاطر انھوں نے اپنا مکان فروخت کیا۔ شہر کی ساؤتھ یارا مارکیٹ میں انھوں نے اپنی پہلا ’مکہ بوتیک‘ کھولا جہاں نارس، سٹیلا اور اربن ڈیکے جیسے شدت سے چاہے جانے والے برینڈز کا کاسمیکٹس سامان فروخت کیا جاتا تھا۔

آج 21 برس بعد مکہ کی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں 87 شاخیں ہیں اور اطلاعات کے مطابق ان کی سالانہ آمدن 223 ملین ڈالر ہے۔

کاسمیٹکس کے ساتھ جو ہورگن کا رشتہ کم عمری میں ہی بن گیا تھا جب وہ اپنی والدہ کو گھر پر میک اپ کرتا دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتی تھیں۔

انھوں بتایا کہ ’میں ایک پرانے زمانے کی سنگھار میز پر اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھا کرتی تھی جہاں ہم باتیں کرتے تھے۔ وہ انتہائی خاص لمحات تھے۔

جب جو ہورگن کی عمر 14 برس تھی تو ان کے گھر والے برطانیہ سے آسٹریلیا آگئے اور پرتھ میں رہائش اختیار کر لی۔

بہت سی نوجوان لڑکیوں کی طرح انھیں بھی میک اپ کرنا بہت پسند تھا لیکن انھوں نے کاسمیٹکس کا کام کرنے کا کبھی نہیں سوچا تھا۔

پرتھ میں گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں انگلش لٹریچر پڑھا۔ بعد میں انھوں نے امریکہ میں بوسٹن یونیورسٹی سے کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا۔

اس کے بعد انھوں نے لاریئل میں ملازمت کا آغاز کر دیا۔

جو ہورگن کا کہنا ہے کہ لاریئل کی جانب راغب ہونے کی وجہ میک اپ کی بجائے مارکیٹنگ تھی اور اس کمپنی میں کام کرنے سے انھیں کاروبار کی سمجھ بوجھ ملی۔

دنیا کی امیر ترین خاتون انتقال کر گئیں

تھائی لینڈ میں پرائیویٹ پارٹس کو گورا کرنے کا رجحان

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کام بہت محنت طلب اور سخت تھا، آپ کو ہر حال میں نتائج لانے تھے۔‘

جب جو ہورگن نے لاریئل چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کیا تو ان کی عمر 29 سال تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ کم عمری سے یہ فائدہ ہوا کہ انھیں بخوبی اندازہ تھا کہ میک اپ کے نوجوان مداحوں کو کیا پسند ہے۔

مکہ 21 سالوں میں پھل پھول تو گیا لیکن سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

کاروبار شروع کرنے کے کچھ سالوں بعد ہی آسٹریلیوی ڈالر کی قدر میں کمی آگئی جس سے کمپنی کے لیے بین الاقوامی اشیا جو گاہک چاہتے تھے مہنگی پڑنے لگیں۔

مکہ کو جو برتری حاصل تھی وہ یہ کہ اس نے بہت پہلے ہی سے ای کامرس اور سوشل میڈیا کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

جو ہورگن کی کمپنی نے 2001 سے ہی اشیا کی آن لائن فروخت شروع کر دی تھی۔ ویب سائٹ کے صفحے پر ہر ماہ نو ملین پیج ویوز ہوتے ہیں۔

یہ سب حاصل کرنے کے لیے کمپنی کی آمدن کا تین فیصد 2500 سے زائد ملازمین کی تربیت پر خرچ کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp