میرا جسم میری مرضی، مگر کیوں ؟


میں ایمنسٹی انٹرنیشنل ڈنمارک کی ممبر ہوں۔ وہی ایمنسٹی انٹرنیشنل جس کا نعرہ ہے کہ ہر نعرے کے پیچھے ایک نظریہ ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں فیمنزم کی تحریکیں بہ صورتِ امواج اٹھیں، مظاہرے ہوئے ، ہا ؤ ہو کے نتیجے میں کچھ مقاصد حاصل ہوئے، کچھ نہ ہوئے۔ پھر بتدریج یہ تحریک ماند پڑتی چلی گئی۔ اب پاکستان میں اندھا دھند تقلید کے مجنونانہ مظاہرے میں کچھ عورتوں نے چادر اور چار دیواری کو منہدم کرنے کی خواہش میں بدن کا سرمایہ بیچ چوراہے میں رکھ تو دیا ہے مگر سیاق و سباق جانے بغیر کیا انہیں وہ حقوق حاصل ہو سکیں گے جن کی وہ متمنی ہیں؟ وہ اپنی ملکیت اپنے بدن (جس کی مدتِ حیات چند برس ہے) کے سرمائے کے چکا چوند مظاہرے سے کون سی سرمایہ کاری کی جنگ جیتنا چاہ رہی ہیں؟

کیا میرا جسم میری مرضی نعرے کا پس منظر بینر اٹھا کر پھرنے والی بیگمات اور ان کے تقلید میں چلنے والی عام خواتین کے علم میں ہے؟ بیگمات تو بے باک ، طیش دلاتے پوسٹرز کی ڈانگ گھماتے گھماتے کسی پنج ستارہ ہوٹل میں قوم کے غم میں ڈنر کھا کر نرم گرم بچھونوں میں گھس جائیں گی جبکہ انہیں پرواہ تک نہ ہو گی کہ دیگر ہم تقلید خواتین گھر پہنچنے تک سواری کے لئے کیسے کیسے خوار ہوتی رہیں گی ۔

نیم برہنہ لباس میں ڈھلکتے بدن کی پائیداری اور دلکشی کا دورانیہ بڑھانے کے لیے اپنے ہی مردوں کی کمائیاں پوش علاقوں کے ڈرماٹولوجسٹس سے بوٹیکس لگوانےمیں اڑانے والی “بیبیوں” نے مٹی کے چولہے جھونکتی، لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھتی، دفاتر میں مرد حضرا ت کی جنسی پیش رفت کو مسترد کرتی اور ان کے انتقام کا شکار خواتین کو کیا فائدہ دیا؟ کیا ان بیبیوں نے کبھی حصولِ علم کی خاطر گھر کے سرپرستوں سے معرکے لڑتی اور تعلیمی اخراجات اٹھاتی محنت کش بچیوں کی عملی مدد بھی کی؟

جن ممالک کے سماجوں سے آپ نے چھومنتر سمجھ کے یہ نعرہ اڑا لیا اور مشرقی عورت کی تعلیمی آزادی سے قبل جنسی آزادی اور جنسی مساوات طلب کی، کیا ان ممالک کی حقوقِ نسواں کی جدو جہد کی خوں چکاں داستان کبھی پڑھی بھی ہے؟

ان میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ بدن کی ریاست کی حاکمیت کا دعوی کرنے سے بہت پہلے یورپ کی عورت نے تعلیم کا حق مانگا۔ پھر اس علم کی روشنی میں جائیداد کا حق، پھر روزگار کا، پھر مساوی تنخواہ کا حق طلب کیا۔ تب کہیں جا کے ایک تعلیم یافتہ، آزاد،خودمختار عورت نے اپنے بدن کے ساتھ جبر و زیادتی، نادانی یا نا پسندیدہ حمل سے نجات کے لیے اسقاط کا حق مانگا تو کہا کہ میرا بدن میری ملکیت ہے میں اس میں زبردستی کسی کے نطفے کی بوند کو گہر نہیں بناؤں گی کہ کل کو معاشرے میں ایک ایسا بچہ آئے جس کے والدین اس کی پرورش سے گریزاں ہوں جو “لو چائلڈ” نہیں۔

کس کس کے علم میں ہے کہ ابارشن کروانے پر ڈنمارک میں قانونی طور پر سزا دی جاتی تھی ۔آج بھی یورپ میں عورتوں کے مظاہروں سے پہلے ہفتوں طویل منصوبہ بندی ہوتی ہے، اہداف اور ان کے حصول کا تعین کیا جاتا ہے، محتاط اور مثبت انداز میں پیش قدمی کی جاتی ہے۔

تقلید کے لیے بھی عقلِ سلیم کی ضرورت ہے، کیا فرانسیسی فیمنسٹ سیمون ڈی بوار کی کتاب کا ترجمہ کرنے والوں نے اس کی ذاتی زندگی کی تصویر کشی کی؟ برطانیہ کی میری وول سٹون کرافٹ کی زندگی کی بے ثمر محبتوں اور خود کشی کی کہانیاں سنیں؟ آخر میں مرد کی آغوش کو پناہ بنا لینے والی عورتوں کےافسانے پڑھے؟ نہیں نا، بس چند ادھ کچے لبرلز نے تانیثیت کا پھریرا لہرایا، مالی منفعت کا بیج بویا، علمی، ادبی اور ثقافتی نشستیں سنبھالیں اور فیمنسٹ کا بیج لگا کے اختیار کی دوڑ لگا دی۔ اپنے ہی مقتدر طبقے کے حصار میں قلعہ بند یہ بزعمِ خود تانیثیت کی محقق اور علمبردار عورتیں کروڑوں محنت کش عورتوں کا نمائندہ کیسے ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے مردوں سے مسابقت کی تگ و دو میں عام عورت کی زندگی مزید اجیرن کی اور خود ہاتھ جھاڑ کر کونے پر ہو گئیں ۔

پاکستانی فیمنسٹوں نے “پہاڑ کی چوٹی تک چڑھائی”جیسا نعرہ اچک تو لیا مگر زمین پر کھڑے کھڑے سڑکوں کو پہاڑ کی چوٹی سمجھ کر “میرا جسم میری مرضی ” جیسا نعرہ لے کر باہر نکل کھڑی ہوئیں اور باقی گھریلو عورتیں سزا بھگتنے میں لگی رہیں۔

اسی فیصد آبادی کے حالات سے واقف ہوئے بغیر، جلتی پر تیل گراتے نعرے لکھے، بینر کا لال کپڑا تہہ کر کے گاڑی کی ڈکی میں رکھا اور ملازمہ سے کھانا لگانے کا کہہ کر ہاٹ شاور لینے دنیا کی کلی ضروریات سے مزین باتھ میں روم جا گھسیں اور یوں ایکٹوٹی کے نام پر ایک دن اور اچھا گزر کیا ۔

میں معافی چاہتی ہوں کہ میں ایک عام سی عورت ہوں اور عام عورت ہی میرا موضوع ہےاس کی تعلیم کا حق میرا پہلا مطالبہ ہے۔ یورپ کی ملکائیں مسلمان ملکوں کے دورے پر جاتی ہیں تو ان کی تہذیب و ثقافت کے مطابق دلکش ملبوسات سلواتی ہیں تاکہ وہاں کی عورت ان سے خائف نہ ہو۔ میں نے اتفاق سے اس طلسم کو بہت قریب سے دیکھ رکھا ہے مجھے بحیثیت ایک عورت شدید مجروح احساس کے ساتھ اپنی ان تمام بہنوں اور بیٹیوں اور دیگر خواتین ِ خانہ سے معذرت کرنی ہے جن کے گھر کے مردوں نے پوری تیاری اور سیاق و سباق کے بغیر چلائی جانے والی تحریک اور نعروں سے خائف ہو کر چاردیواری کے روزن اور تنگ کر دیئے۔ اگلی بار ضرور نکلئے مگر مہم جوئی کے سفر پر نہیں، مرحلہ در مرحلہ حقوق کے حصول کے لئے۔ نہ تو یہ سفر مختصر ہے نہ ہی آسان۔ اسے مذاق اور تفریح سمجھنا استحصال کو مزید زندگی دینے کے برابر ہے۔

صدف مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف مرزا

صدف مرزا کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مقیم ادیبہ، مترجم اور صحافی ہیں۔

sadaf-mirza has 3 posts and counting.See all posts by sadaf-mirza