فیسوں میں کمی کا حکومتی فیصلہ، خیبر پختونخوا میں دو دن تک نجی سکول بند


سکول

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی تنظیم پیما نے حکومت کی طرف سے پرائیوٹ سکولوں کی فیسوں میں مزید کمی کے فیصلے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دو دن تک صوبے بھر میں تمام پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو بند کردیا ہے۔

پشاور میں پیر کو نجی تعلیمی اداروں کی تنظیم پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن منیجمینٹ ایسوسی ایشن یا پیما کی طرف سے ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ضلع بھر کے عہدیداروں اور مالکان نے شرکت کی۔

تنظیم کے صدر یاور نصیر نے بی بی سی سے کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ پہلے حکومت کی طرف سے ایک ایکٹ کی منظوری دی گئی جس کے مطابق نجی سکولوں کے فیسوں میں دس فیصد کمی لائی گئی جبکہ فیس سٹرکچر میں کچھ دیگر تبدیلیاں بھی کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ نجی تعلیمی ادارے کے نگران حکومتی ادارے کیپسا نے حالیہ دنوں اپنے طورپر فیصلہ کرتے ہوئے ان فیسوں میں مزید بیس فیصد تک کمی کردی ہے جس سے اب مجموعی کمی تیس فیصد ہوگئی ہے۔

یاور نصیر کے مطابق کیپسا کے احکامات کے بعد اب ایک کنفویژن پیدا ہوگئی ہے اور نجی تعلیمی اداروں کے ملکان بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ قانون پر عمل درامد کو یقینی بنائے یا نگران ادارے کیپسا کے احکامات کو مانے۔

انہوں نے کہا کہ ایکٹ کے تحت تمام نجی سکولوں پر لازم کردیا گیا ہے کہ وہ چھٹیوں میں بچوں سے آدھی فیس لیں گے جبکہ دوسرے بچے کی صورت میں بھی ان کو چالیس فیصد رعایت دینا ہوگی۔

یاور نصیر کا کہنا تھا کہ صوبے میں بیشتر نجی تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں اور چھٹیوں میں ان سے مالکان پورا کرایہ وصول کرتے ہیں جبکہ اساتذہ کو بھی تنخواہیں دی جاتی ہیں لہذا ان کے لیے مشکل ہے کہ تمام فیصلوں پر عمل درامد کرایا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل پر غور نہیں کیا تو ان کا احتجاج جاری رہے گا۔

دریں اثناء پیما کی کال پر پیر کو صوبہ بھر میں تمام نجی تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ ہڑتال کا سلسلہ منگل کے روز بھی جاری رہے گا ارو اس دوران نجی اداروں میں کوئی کام نہیں ہوگا۔

ادھر دوسری طرف پشاور میں نجی سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کے والدین نے پیما کی طرف سے دو دنوں تک سکولوں کی بندش کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا۔

مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر نجی تعلیمی اداروں کے نعرے درج تھے۔

پشاور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر بخت زمان یوسفزئی کے تین بچے ایک نجی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم ہیں۔

سکول

انھوں نے کہا کہ دو دنوں تک سکولوں کو بند کرنا انتہائی اقدام ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان طلبہ کو پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نجی سکول ہر مہینے ان سے فیس کی مد میں ہزاروں روپے لیتے ہیں اور اب جبکہ عدالت اور حکومت کی طرف سے فیسوں میں کمی کے واضح احکامات جاری کیے گئے تو سکول مالکان ان پر عمل درآمد نہیں کرا رہے جس سے وہ توہین عدالت کے مرتکب بھی ہورہے ہیں۔

بخت زمان یوسفزئی نے الزام لگایا کہ نجی تعلیمی ادارے ایک پریشر گروپ بن چکا ہے جو نہ صرف بچوں اور ان کے والدین پر دباؤ ڈال رہے ہیں بلکہ حکومتی اداروں کو بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فیسوں میں کمی کی عدالتی اور حکومتی فیصلے پر من و عن عمل درامد کرایا جائے تاکہ مالی مشکلات کا شکار والدین کو کچھ رعایت مل سکے۔

خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں تقریباً تیس ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ نجی تعلیمی ادارے قائم ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چند ماہ پہلے پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے ایک فیصلے کے تحت نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں کمی اور دوسرے بچے کو رعایت دینے کے احکامات جاری کیے گئے تھے تاہم نجی تعلیمی اداروں کی تنظیم نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض نجی تعلیمی اداروں کے مالکان صوبائی حکومت میں شامل ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات حکومتی فیصلے تاخیر کا شکار نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp