برو کوڈ اور بھینسوں کا بہناپا


پتہ نہیں یہ گمان کیوں عام ہے کہ پاکستانیوں کی آپس میں نہیں بنتی۔ جہاں ہمسایہ ملک کے لوگوں کو ہم نے دفتروں وغیرہ میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے دیکھا وہیں اپنے بھائی بندوں کو یکسر مختلف دیکھا۔ خیر شاید اسٹیریو ٹائپ ہی تھا کیونکہ ہماری یہاں آتے ہی یہ غلط فہمی یوں بھاگی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کچھ ٹائمنگ بھی ایسی ہو گئی۔

جن دنوں میں ہم آئے انہی دنوں میں ممتاز گلوکارہ میشا شفیع کی اپنے ساتھی گلوکار علی ظفر کے بارے میں جنسی ہراساں کرنے کے الزامات کی خبر گرم تھی۔ میشا نے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے یہ بات سب کے سامنے کہہ دی کہ علی ظفر نے انہیں دو بار جنسی ہراساں کیا ہے۔ میشا کے اس الزام کے بعد اور بھی کچھ خواتین سامنے آئیں جن کو علی ظفر سے یہی شکایت تھی۔ ایک عورت ہونے کے ناتے ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی خاتون کے لئے اس موقع پر کھل کر سامنے آنا کس قدر مشکل ہے۔ آپ کا تعلق کسی بھی طبقے یا مکتب فکر سے ہو اگر آپ خاتون ہیں تو اس قسم کے مسائل کا سامنا کوئی انہونی نہیں۔ وقت اور مقام کی بھی کوئی قید نہیں۔ بازاروں میں کہیں بھی چھو لینے سے لے کر دفتر میں باس کے نازیبا میسجز لے لیجیے۔ فہرست لمبی ہے اور وقت کم۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ایسے گھمبیر موقع پر عورت سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ خاموش رہے۔ بولنا تو کنڈا کھولنے والی بات ہے۔ اصل بات پیچھے رہ جاتی ہے اور وہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ وکٹم کے کردار پر رکیک الزامات کے علاوہ یہ بات بھی بارہا ثابت کی جاتی ہے کہ کچھ نہیں ہوا بی بی۔ چپ سادھ لو۔ یعنی جو وکٹم پر بیتی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر زمانہ اس کو جرم نہیں سمجھتا تو آپ بھی یہ خیال کر لیں کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔

میشا شفیع کا تعلق بھی تو اسی معاشرے سے تھا۔ لہذا وہ طوفان بدتمیزی بلند ہوا کہ مت پوچھیے۔ خیر سوشل میڈیا پر آپ بھی ہیں اور ہم بھی۔ ہمارے طبقاتی نظام میں بہت سے لوگ تو اس جنسی جرائم کے معاملے میں ہیں ہی کنفیوز۔ اگر ریپ نہیں ہوا یا جو ڈی این اے رپورٹ میں نہیں آ پایا تو بی بی اپنا رستہ ناپو۔ اگر کسی بے مجھ سے فون پر نازیبا گفتگو کی ہو یا مجھے چھوا ہو تو میں اس کے ثبوت پیش کروں ورنہ چپ رہوں۔

خیر گلی محلے میں آوازیں کسنے والوں کا مائنڈ سیٹ تو سمجھ آتا ہے۔ لیکن یہاں جو چیز بہت پریشان کن ملی وہ ہماری اپر کلاس کا ردعمل تھا۔ حیرت ہوئی کہ وہی لوگ جو پہلے مختلف مواقع پر عورتوں کے حقوق اور می ٹو کمپین کے علمبردار تھے انہوں نے بھی علی ظفر کا ساتھ دیا۔ کئی لوگوں نے یہ کہا کہ ویسے تو علی ذرا عجیب طبیعت کے ہیں لیکن ’اتنے‘ بھی نہیں۔ ان تمام خواتین کو یکسر جھٹلایا گیا۔ یہ وہی کلاس تھی جس نے ایک مشہور اخبار کے ایڈیٹر کے ریپ سے متعلقہ ٹویٹس کا دفاع بھی کیا تھا۔ عجیب بات تھی کہ اصول پیچھے رہ گئے اور سچی یاری سب پہ بھاری نکلی۔ فیممنزم کا پرچار کرنے والے بہت سے لوگوں کا وہ پول کھلا کہ ہم تو ہکابکا رہ گئے۔

پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے
’مجھاں مجھاں دیاں بہناں ہندیاں نیں۔‘ (بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں)۔

انگریزی زبان میں اسے برو کوڈ کہتے ہیں۔ کسی اور زبان سے ہم واقف نہیں۔ لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ مفاد اور اپنے طبقے میں یاری سب اصولوں سے بالاتر ہے۔ خوامخواہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی آپس میں نہیں بنتی۔ ضرور بنتی ہے جناب بشرطیکہ کلاس ایک ہو۔ یہاں تو یہی دیکھنے کو ملا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).