ووٹ کی حرمت کی تاریخ


شارجہ کا ایک معروف ادبی لطیفہ تو آپ نے سنا ہو گا۔ شعراء کی محفل میں علامہ ابوالامتیاز ع س مسلم نے کہا کہ گھر میں تو ہمیں کوئی پوچھتا نہیں مگر باہر بڑی عزت ہے۔ جناب منورؔ عزیز نے ادب سے جواب دیا کہ میں آپ کی غلط فہمی دور کر دوں، باہر بھی آپ کی کوئی عزت نہیں۔

علامہ کی طرح ہم لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارا ووٹ گھر ہی میں ” پَھتُو‘‘ ہے، باہر تو اسے اونچے شملے والا فتح خان کہا جاتا ہے۔ کسی منور عزیز کو ہماری یہ غلط فہمی بھی دور کر دینی چاہیے کہ حضور، باہر بھی آپ کے ووٹ کو قدرکی اسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جس سے آپ کے سبز پاسپورٹ کو۔ اگر آپ کے ووٹ کی زبان ہوتی تو میشا شفیع کی طرح کب کا پھٹ چکا ہوتا کہ اسے علی ظفروں نے کیسے کیسے ہتھکنڈوں سے ہراساں کیا ہے۔

ہمارے دیس کی سیاست میں جہاں چور اور لٹیرے بکثرت پائے جاتے ہیں، وہاں عظمت کے پہاڑ بلکہ ان کا لا متناعی پہاڑی سلسلہ بھی موجود ہے۔ اگرچہ دونوں طبقے الگ الگ بیانیہ رکھتے ہیں مگر وہ ایک بات پر متفق ہیں کہ ووٹر کی عزت بھلے نہ ہو مگر ووٹ کی عزت ضروری ہے۔ کسی غلط فہمی سے بچنے کے لیے یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان کے خیال میں عزت دار ووٹ وہ ہے، جو صرف ان کے حق میں ڈالا جائے، چاہے وہ کوئی ووٹر ڈالے یا فرشتہ۔ آج اگر ووٹ کی حرمت کی دہائی دینے والوں نے ماضی میں خود اسے خاصی عزت دی ہے تو پہاڑی سلسلۂ متذکرہ نے بھی اس نیک کام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم آج کے کالم میں یہاں ووٹ کو عزت سے سرفراز کرنے کی تاریخ کا اجمالی سا جائزہ لیں گے .

موجودہ حالات پر جھوٹ گھڑنے کا کام آئندہ کے کالم تک موخر کریں گے۔

ہماری شاندار تاریخ کی ہر سلوٹ میں ووٹ کی حرمت کی ایک الگ داستاں لپٹی ہے۔ اس کار خیر کا سنگِ بنیاد تو مملکت خدا داد کے وجود میں آنے سے قبل ہی رکھ دیا گیا تھا، جب عظمت کے میناروں کی جانب سے گاندھی جی کو اپنے جلسوں میں زحمت دے کر تقریریں کروائی گئیں‘ اور ”ناپاکستان‘‘ اور ”کافرِ اعظم‘‘ جیسے ایمان افروز نعرے متعارف ہوئے۔11 ستمبر 1948ء کی اُس چلچلاتی دھوپ میں جب ماڑی پور کے فٹ پاتھ پر قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہوئی، تب بھی ووٹ کی توقیر میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔

ان کی رحلت کے بعد تو نظریہ پاکستان اور قراردادِ مقاصد کی تخلیق نے ووٹ کو اتنی عزت سے نوازا کہ آج تک اس سے سنبھل نہیں پائی۔ 1951ء میں لیاقت علی خان کا قتل بھی ووٹ کو عزت دینے کا ایک بہانہ تھا۔ ہاتھ پائوں اور زبان سے معذور جناب غلام محمد بھی اپنی صحت پر توجہ دینے کی بجائے ووٹ کو حرمت سے نوازنے پر مصر رہے۔ 11 اگست 1954ء کو ان کی طرف سے اسمبلی توڑنا اسی سلسلے کی ایک کاوشِ جمیلہ تھی۔ لاریب! اس حکم کے خلاف مولوی تمیزالدین کی درخواست پر عالی قدر جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت نے بھی ووٹ کو احترام کی ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔

صدر سکندر مرزا کی طرف سے کمانڈر انچیف ایوب خان کی کابینہ میں شمولیت اور 1956ء کے اپنے ہی آئین کو پامال کرتے ہوئے مارشل لاء کا نفاذ بھی یقیناً اسی سلسلے کے اقدامات تھے۔ ووٹ کی حرمت کے لیے ایک انقلابی قدم 27 اکتوبر 1958ء کو اٹھایا گیا، جب ایوب خان مارشل لا لگا کر عوام کے ووٹ کی کوہان پر زبردستی سوار ہو گئے۔

حسین شہید سہروردی نے اس مارشل لا کو چیلنج کیا مگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت کو مشعل راہ بنا کر ووٹ کو پزیرائی بخشی۔ حبیب جالبوں کا واویلا کسی کام نہ آیا‘ اور ووٹ کی عزت محفوظ رہی۔ پرچی کے احترام کے لیے ایوب خان کا 1962ء کا صدارتی آئین اور بنیادی جمہوریتوں کا نظام بھی کچھ کم نہ تھا۔

تب ملک کی صدارت کے لیے مادرِ ملت کے مقابلے میں ایوب خان کی جیت سے ووٹ کو وہ عزت حاصل ہوئی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ عزت مآب یحییٰ خان بھی اسی خیرالعمل کے لیے میدان میں آئے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں ووٹ نے اپنی عزت کا پاس نہ کیا اور ”مطلوبہ‘‘ نتائج نہ دے سکا۔ تب اقتدار مشرقی پاکستان کی جانب سرکتا محسوس ہوا تو یحییٰ خان نے محض اس کی حرمت کی خاطر ہی تو اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تھا۔ بھلے اس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا مگر اللہ کا شکر ہے کہ ووٹ کی عزت بچ گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو 1973ء کا پہلا متفقہ آئین تو دیا مگر بدقسمتی سے ملک میں کچھ قباحتیں در آئیں، جن سے ووٹ کی عزت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے۔ جیسے ایٹمی پروگرام کی بنیاد، سٹیل ملز کا قیام، ٹینک بنانے کی واہ فیکٹری، کامرہ کمپلیکس، ایچ ایم فیکٹری، اسلامی سربراہ کانفرنس اور سب سے بڑھ کر ملک میں پھلتا جمہوری کلچر، سیاسی شعور اور ووٹ کے ہاں بھٹو کی مقبولیت۔

ان خطرناک حالات میں ووٹ کی حرمت بحال کرنے کی خاطر امریکی سپانسرڈ تحریک نظام مصطفیٰ چلائی گئی، جس کے بطن سے 5 جولائی 1977ء کی حبس زدہ رات وہ مردِ جری برآمد ہوا، جس نے ووٹ کا قبلہ درست کرکے اسے ملک اور دنیا میں ایک مرتبہ‘ پھر باعزت مقام دلا کر ہی دم لیا۔ اس کی طرف سے بھٹو کی پھانسی، مجلس شوریٰ کا قیام، ریفرنڈم، غیرجماعتی انتخابات، آٹھویں ترمیم اور جونیجو حکومت کی برطرفی جیسے انقلاب آفریں اقدامات سے ووٹ کو جو مقام عطا ہوا، اس کا کسی دوسرے ملک کا ووٹ خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔

مردِ مومن کی بے وقت موت کے بعد 1988ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے ہاتھ سے ووٹ کا مقام گرنے لگا‘ تو غلام اسحاق خان نے منتخب حکومت کے سینے میں 2-B/58 کا تیز دھار چھرا گھونپ کر ووٹ کو سہارا دیا۔ آئندہ کے لیے ووٹ کو ایسی بے توقیری سے بچانے کے لیے آئی جے آئی کی تشکیل ہوئی اور نوازشریف نے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی‘ مگر ووٹ کی عظمت کی بحالی کی خاطر اسے بھی اسی بزرگ نے قبل از وقت فارغ کر دیا۔ 1996ء میں بے نظیر کی دوسری حکومت سے ووٹ کی عزت بچانے کا فریضہ فاروق احمد لغاری نے ادا کیا۔

1997ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف کی حکومت قائم تو ہو گئی مگر جمہوریت کا وقفہ طویل اور ووٹ خاصا رسوا ہو چکا تھا۔ پس پرویز مشرف شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ حاضر ہو گئے اور ووٹ کے پیشہ ور اور مستقل محافظ ایک مرتبہ پھر آمریت کی کالی ماتا کے سامنے پراتھنا میں جُت گئے۔ اس روشن خیال بزرگ نے ریفرنڈم، ق لیگ اور ایم ایم اے کی تشکیل اور سترہویں ترمیم جیسے شاندار اقدامات کے ذریعے ووٹروں اور ووٹ کو آدابِ احترام سکھائے اور ووٹ کی عظمتِ رفتہ بحال کی۔ حسب سابق اس عظیم فریضے کی ادائیگی کی خاطر مردِ مومن اور مردِ روشن خیال کو منصفوں نے خلعتِ جواز عطا کی تھی۔

اس دور میں27 دسمبر 2007ء کو ووٹ کی قدر و منزلت میں اضافے کی خاطر ایک ایسا دلخراش سانحہ رونما ہوا کہ آسماں بھی رو پڑا۔ سرخ رنگ سے سجی سنوری ایک دلہن راولپنڈی سے گڑھی خدا بخش کے قبرستان کی طرف روانگی سے قبل تابوت کی ڈولی میں بیٹھتے بیٹھتے دعویٰ کر گئی:

مرے خوں کی مہندی نہ اترے گی صادق
وہ ہاتھوں کو مَل مَل کے دھویا کریں گے

ووٹ اس ملک کی چوکھٹ پر ہمیشہ کشکول اٹھائے عزت کے لیے سوالی رہا ہے۔ خیرات ڈالنے والوں نے بھی اسے کبھی مایوس نہیں کیا اور حسب توفیق اس کاسے میں کچھ نہ کچھ ڈالتے ہی رہے ہیں، تبھی تو یہ اتنا عزت دار ہے… ورنہ اس غالب کی آبرو کیا ہے؟

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).