حمزہ علی عباسی خواتین کی ہاں اور ناں میں فرق کرنا سیکھیں


گذشتہ روز حمزہ علی عباسی کی ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ میشا شفیع کے علی ظفر پر لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزام کے معاملے پر اپنی ایک ٹویٹ کی وضاحت کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی اس ویڈیو میں ایلیٹ کلاس اور شوبز ستاروں کی زندگی کے ریفرنس میں واضح کرنے کی کوشش کی کہ اتنی بے تکلفی میں معلوم نہیں پڑتا کہ خاتون کا کون سا عمل اس کی اجازت ظاہر کرتا ہے اور کون سا نہیں۔

حمزہ نے مزید کہا کہ ایک ایسی انڈسٹری جہاں ہاتھ ملانا، گلے ملنا، پارٹی کرنا اور اکٹھے شراب پینا عام ہے، وہاں بے تکلفی کی کسی حد کو ‘عورت کی ہاں’ تصور کیا جائے، اکثر یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

آدمی بے چارہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ عورت شرما رہی ہے، اس لیے کوئی واضح اشارہ نہیں دے رہی۔ مجبوراً آدمی کو واضح اشارہ دیکھنے کے لیے بے تکلفی کی مزید حدیں پار کرنی پڑتی ہیں، تب بھی پتہ نہ لگے تو اپنی حدود میں واپسی کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اب اس لمحوں کے کھیل کو کوئی عورت دو چار سال بعد سوشل میڈیا پر جنسی ہراسانی کا کیس بنا کر پیش کر دے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ بھلا اُسی وقت بتاتی کہ اس حرکت سے میں جنسی طور پر ہراساں ہوئی ہوں۔ ان عورتوں کو بھی تب بولنا یاد آتا ہے جب دوسرا فریق اس واقعے کو کب کا بھلا چکا ہوتا ہے۔

حمزہ علی عباسی کی یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والی اور ملنے جلنے والی خواتین کو محتاط ہو جانا چاہئیے۔ نجانے ان کے ہاتھ ملانے، گلے ملنے، ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوانے یا ایک گلاس ڈرنک پینے کو وہ کیا سمجھ لیں اور پھر وہ ہو جائے جس کے لیے یہ خود تو راضی ہوں مگر خاتون راضی نہ ہو۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان سے ملتے ہوئے بتا دیا جائے کہ اس ملاقات کو بس ایک ملاقات ہی سمجھنا، اس سے آگے کی سمجھ آپ کو کسی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

حمزہ علی عباسی کی طرح پاکستان میں بہت سے ایسے مرد ہیں جو اپنی پوری زندگی عورت اور اس کے اشاروں کو سمجھنے میں لگا دیتے ہیں۔ عورت کی کس حرکت اور کس ادا کو اس کی ہاں سمجھیں اور کس کو نہ، یہی جاننے میں ان بیچاروں کی پوری زندگی صرف ہو جاتی ہے۔ ان بے چاروں کو اس پریشانی سے نجات ملتی تو یہ بھی سٹیفن ہاکنگز جیسے کارنامے سرانجام دے لیتے مگر انہیں تو عورت لے ڈوبی۔ اس دنیا میں بھی عورت کے غم انہیں ستاتے رہے اور آخرت میں بھی عورت کا لالچ ہی ان کی پرہیزگاری کی وجہ بنا۔

خیر ہم ذکرِ خیر کر رہے تھے محترم جناب حمزہ علی عباسی کا۔ انہوں نے تو شروع سے یہی پڑھا ہے کہ اچھی عورتیں مردں کو دیکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہیں، کبھی بات کرنی بھی پڑے تو ایسے سخت لہجے میں کرتی ہیں کہ اگلے کی سات پشتیں کسی عورت سے فلرٹ کرنے کا نہیں سوچتیں۔ ایسی عورتیں ہوں تو معاشرے میں برائی کا نام و نشان تک نہ ملے۔

لیکن آج کل کی عورتوں نے اپنی شرم اتار پھینکی ہے۔ اب یہ عورتیں مرد سے دوستی بھی کرتی ہیں، ساتھ کام بھی کرتی ہیں، ساتھ چائے بھی پیتی ہیں اور باہر کھانا کھانے بھی چل دیتی ہیں۔ اب یہ ‘ہاں’ نہیں تو اور کیا ہے؟ اتنی ہی شریف ہوتی تو گھر بیٹھتی نا۔ گھر سے باہر نکلنے کا تو یہی مطلب ہے کہ آگ بہت زور کی لگی ہوئی ہے۔

حمزہ بار بار ویڈیو میں یہ کہہ رہے ہیں کہ میں عام عورت کی بات نہیں کر رہا۔ اس کے تو مسائل ہی الگ ہیں۔ میں ہمارے سرکل کی عورتوں کی بات کر رہا ہوں جن کے لیے مرد سے بے تکلف ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ حمزہ کی باتیں سن کر ایسے لگتا ہے جیسے شوبز انڈسٹری اور ایلیٹ کلاس میں پیدا ہونے والی ہر خاتون “ہر مرد کا مجھ پر حق ہے” نامی معاہدے پر دستخط کرکے آتی ہے جس کے بعد انہیں ہراساں کرنا اور ان کا استحصال کرنا مردوں کا حق ہوتا ہے۔ اب مردوں کو یہ حق خود دینے کے بعد جنسی ہراسانی کی شکایت کرنا تو زیادتی ہی ہے نا۔

حمزہ علی عباسی صاحب آپ کو شدید طور پر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ‘عورت کی ہاں’ کیا ہوتی ہے۔ اس کے لیے آپ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے سپر سٹار امیتابھ بچن کی فلم ‘پنک’ دیکھ سکتے ہیں۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد شائد آپ کی وہ تمام غلط فہمیاں دور ہو جائیں جو کسی بھی عورت کی کسی بھی حرکت سے آپ کے یا دیگر مردوں کے دل میں پیدا ہوتی ہیں۔

تب تک آپ اپنی ساتھیوں کے ساتھ ہاتھ ملانا، گلے ملنا، پارٹی کرنا اور خلوت میں ملنا بند کر دیں کیونکہ ہو سکتا ہے آپ اس بے چاری کے ہاتھ ملانے کو گرین سگنل سمجھ رہے ہوں اور وہ بس ہاتھ ملا رہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).