عورت کا مرد سے بدلہ ۔۔۔ ایک صبر آزما انتظار


 ہمارے ایک بہت پرانے پڑوسی جو اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے خاصے مشہور تھے برسوں پہلے یہ محلہ چھوڑ کر کسی اور علاقے میں جا بسے ۔ دو برس قبل جب انکے انتقال کی خبر پہنچی تو ہم پر تعزیت کرنا فرض بن گیا۔ سو جنھوں نے اطلاح دی ان سے نمبر مانگا اور کال ملادی۔ کال ملاتے وقت ذہن تعزیت کے لئے الفاظ اکٹھے کرنے میں مصروف تھا کہ ایک انجان آواز سے تعارف ہوا معلوم ہوا کہ وہ انکی نواسی تھی خیر ہم نے انکی نانی سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ کچھ دیر بعد جب آنٹی فون پر مخاطب ہوئیں تو انکی آواز سنکر محسوس ہوا کہ برسوں بعد پرانے پڑوسی کی آواز سنکر انھیں بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی۔ انکی جانب سے پے در پے نہ ختم ہونے والے سوالات شروع ہوئے ہمارے گھر اور دیگر پڑوسیوں کو لیکر، میں نے کئی بار چاہا کہ انکے شوہر کے انتقال کا افسوس کروں لیکن یہ ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

میں نے اپنی ٹیچر کی بھی خیریت جانی جن سے بچپن میں ، میں ٹیوشن پڑھتی تھی تو معلوم ہوا کہ انھی کی بیٹی نے کال ریسیو کی تھی۔ خیر میں نے انکی بات کو نہ چاہتے ہوئے بھی کاٹتے ہوئے اصل مدعا بیان کیا کہ انکل کے انتقال کا سنکر بہت افسوس ہوا کیا بیمار تھے؟ آگے سے بے انتہا اطمینان سے جواب آیا کہ نہیں بس اچانک ہی ہارٹ فیل ہوگیا۔ بیمار تو ہم رہتے تھے بیٹا ! کئی بار موت سے مل کر اسپتال سے گھر واپسی ہوئی لیکن ہم جی رہے ہیں وہ چلے گئے۔ افسوس ہوا آنٹی انکل کی موت کا سن کر۔۔۔ میں نے رسما جملے ادا کئے ، لیکن اس پر جواب میری سوچ کے برعکس ملا ۔ افسوس تو ہمیں ہے ابھی تو ہم نے ان سے پچھلے کئی برسوں کا حساب لینا تھا ابھی تو ہمارے قدم مضبوط ہوئے تھے ، ابھی تو ہم میں بولنے کی طاقت سے سر اٹھایا تھا، ابھی تو بہت کچھ پوچھنا تھا تمہارے انکل سے ، ابھی تو بہت سے قرض تھے ان پر جو انھیں اتارنے تھے۔ لیکن تمہارے انکل چپ کر کے نکل گئے۔ شاید انھیں نظر آگیا تھا کہ انکا وقت ختم ہوچکا، انکی طاقت اور غرور خاک میں مل چکا تب ہی انھوں نے احتساب سے پہلے ہی رخصت لے لی۔ میرے پاس اب کچھ بولنے کو نہ رہا۔ گفتگو سمیٹی اور فون بند کردیا۔ بہت دیر سوچتی رہی، ماضی کے بند دروازے کھلنے لگے تو بہت سے منظر صاف دکھائی دینے لگے۔

  انکل احمد کا گھرانہ بارہ افراد پر مشتمل تھا، دس بچے جن میں پانچ بیٹیاں پانچ بیٹے اور ایک ڈری سہمی سی بیوی۔ جب وہ محلے میں آئے تو سب نے کہا کہ اتنا بڑا کنبہ ہے خوب ہنگامہ رہے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ہنگامہ برپا کرنے کے لئے اس گھر کا سربراہ ہی کافی ہوا کرتا تھا۔ خود وہ ایک بینک میں بہت بڑے عہدے پر فائز تھے۔ انکی سب سے بڑی بیٹی جو اس وقت جامعہ کراچی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کر رہی تھی وہ میری ٹیوشن کی ٹیچر بن گئیں میں اس وقت پانچویں جماعت میں تھی جب اس گھرانے کو قریب سے جاننے کا موقع ملا ۔ لیکن وہ اس گھر میں جب شفٹ ہوئے تھے تب میں پہلی جماعت میں تھی ۔

ان کے کچن میں کام کے دوران کوئی برتن کھٹک جاتا تو سب کی ایسی تیسی ہوجاتی، کوئی بیٹی اپنی بہن سے بات کرتے ہوئے ہنستی تو اسے انکل کی بارگاہ میں حاضر ہوکر ہنسنے کی وجہ بتانی پڑتی، گھر میں کسی کی چوں چراں کا سوال ہی نہیں تھا سب ایک جیسی ربڑ کی بے آواز چپلیں پہنے گھر میں پھرتے تھے کہ ابا قدموں کی آواز سے ڈسٹرب نہ ہوں ۔ گھر شیشے کی طرح چمکتا اور ڈائننگ ٹیبل پر دوپہر دو بجے کھانا رکھ دیا جاتا جو گھر میں ہوتا وہ گرم کھانا کھاتا جو یونیورسٹی سے آتا اسے کھانا میز پر آکر وہی سے کھانا پڑتا گرم کرنے کی گنجائش نہ تھی رات کے کھانے پر یہی معمول تھا۔ کسی بیٹے سے کو ئی غلطی ہوجائے تو اس رات اس کا گھر میں داخلہ ممکن نہ ہوتا اور وہ بیٹا باہر کیاری پر بیٹھا نظر آتا اسے یہ بھی اجازت نہ ہو تی کہ وہ کسی دوست یا پڑوسی کے گھر رات گزارے ایسے شور شرابے اور ہنگامے محلے نے خوب دیکھے۔

 ایک بار ٹیوشن پڑھتے وقت میں کوئی سوال بار بار دہرا رہی تھی تو انکل کمرے سے آگئے اور اپنی بیٹی پر برس پڑے کہ کیا تمہیں سنائی نہیں دے رہا کہ سدرہ بار بار سوال کر رہی ہے تم لگی ہو اور بچوں کی سننے۔ اسکے بار بار بولنے سے میں زچ ہو رہا ہوں اور یہ تمہیں پتہ ہونا چائیے۔ بیٹی کو جس انداز سے ڈانٹا گیا اس سے وہ ٹیوشن کے اتنے سارے بچوں کے سامنے شرمندہ ہوگئیں ۔ میں نے گردن اٹھا کر کہا انکل آپ میری مس کو ایسے نہیں ڈانٹ سکتے۔ انھوں نے مجھے بغور دیکھا اور کہا کہ یہ تمہاری مس ہے تو میری بیٹی ہے۔ میں نے جواب دیا پھر تو آپ بالکل نہیں ڈانٹ سکتے آئندہ ایسا نہیں کیجئے گا اگر آپ کو سب کے سامنے آفس میں ڈانٹا جائے تو؟ میرا یہ کہنا تھا کہ میری ٹیچر نے فورا کرسی چھوڑی اور واش روم چلی گئیں اور انکل نے مجھے بہت دیر تک دیکھا اور اندر کمرے میں چلے گئے۔ انکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نے عدلیہ کی توہین کر ڈالی ہو اور جب ٹیچر واپس آئیں تو صاف لگ رہا تھا کہ آنکھیں رگڑ رگڑ کر دھوئی ہیں جس پر میں نے ان سے پوچھا آپ کو کیا ہوا؟ تو انھوں نے کچن کی طرف اشارہ کر کے کہا جب بھی مصالحہ بھونا جاتا ہے میری آنکھوں میں مرچیں لگنے لگتی ہیں۔

 بچے بڑے ہوتے گئے اور ایک ایک کرکے شادی کے بعد گھونسلا چھوڑتے گئے جواز یہ پیش کیا کہ اپنی بے عزتی اب بیوی کے سامنے قبول نہیں صرف ایک بیٹا تین برس ساتھ رہنے کا ریکارڈ پورا کر پایا پھر وہ بھی ہمت ہار بیٹھا ۔ ابا کا احترام سر آنکھوں پر رکھا، لیکن یہ تمام بہن بھائی ایک دوسرے کے گھر جا کر مل کر خوش ہوتے ۔ لیکن جب کسی تقریب میں ابا کے گھر آتے تو سب کے چہرے اترے دکھائی دیتے۔ آنٹی کو میں نے بولتے نہیں سنا وہ ہر وقت یا تو کچن میں ہوتیں یا بچوں کے مسئلے کسی کونے میں ہلکی آواز سے سلجھاتے ہوئے نظر آتیں۔ بیٹوں نے باہر کے ممالک کے راستے لئے، بیٹیاں بیاہ کر اپنے گھر چلی گئیں آخر میں ایک بیٹا اور بیٹی رہ گئے جنھوں نے اپنے بچپن سے یہ دیکھ رکھا تھا اور اب وہ بھی پڑھ لکھ کر بڑے عہدوں پر جا پہنچے تھے۔ انکے گھر کا سب سے چھوٹا بچہ بھی مجھ سے عمر میں تین سال بڑا تھا جو اکثر یہ کہتا تھا کہ میں کچھ بن جاوں تو اماں کو لیکر چلا جاوں گا ابا رہیں اکیلے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar