عورت کا مرد سے بدلہ ۔۔۔ ایک صبر آزما انتظار


سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ وہ ایسا کیوں کہتا تھا۔ ایک بار میں نے ابو سے یہ سوال کیا تو حسب عادت انھوں نے جواب نہیں دیا پھر ایک روز گرمیوں کی رات میں چھت پر بیٹھ کر میں نے یہ سوال پھر دہرایا کہ حسن ایسا کیوں کہتا ہے؟ ابو نے مجھ سے پوچھا تمہیں کیا لگتا ہے؟ میں اس وقت نویں جماعت میں تھی تھوڑی سمجھدار ہوچکی تھی ۔ میں نے جھٹ کہا شاید احمد انکل مزاج کے سخت ہیں کسی کو اپنے سامنے کچھ سمجھتے نہیں۔ آنٹی تو بہت ڈری سہمی لگتی ہیں اور انکل انھیں تو لحاظ ہی نہیں کہ کون ہے کیا ہے؟ بس کچھ ناگوار گزرا اور بے عز تی کردی تو شاید حسن بد دل ہوگیا ہوگا۔ ابو نے ایک گہری سانس لی اور کہا کہ مر د ایسے ہی ہوتے ہیں کسی کو اپنے مرتبے کا گھمنڈ ہوتا ہے، کسی کو روپے پیسے کا ، کسی کو اپنی طاقت پر غرور ہوتا ہے، تو کسی کو حاکمیت کا احساس بار بار جتاتا ہے کہ مرد ہو سب کو جوتے کی نوک پر رکھو وہ جو اپنے اردگرد دیکھ رہا ہوتا ہے اسکا انتظار کرتا ہے کہ کب میر ا وقت آئے گا۔ پھر اسکا وقت آتا ہے وہ شوہر بنتا ہے تو اسے موقع ملتا ہے پھر باپ بنتا ہے تو اور موقع ملتا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ وہی سوچ جو اسکی ہے اسکے پیدا کئے سپوتوں کے ذہن میں بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ جب وہ اپنا منصب چھوڑے گا تو اگلا سنبھالے گا۔ حسن اپنے منصب کا انتظار کر رہا ہے اور احمد صاحب ہار نہ ماننے والے دکھائی دے رہے ہیں باوجود اس کے کہ اب انکے بچے آہستہ آہستہ انھیں چھوڑ کر جاتے جارہے ہیں۔ ابھی بہت وقت پڑا ہے دیکھو کیا ہوتا ہے۔

  میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ایک دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا نیا گھر تھا تو اس نے ایک ایک کمرا خوشی سے دکھایا۔ ایک کمرا دیکھا جو بہت سادہ سا تھا کمرے میں کل تین چیزیں تھیں ایک مسہری ساتھ میں رکھی کرسی اور سامنے ٹی وی، پوچھا یہ کس کا کمرا ہے؟ تو بولی ابو کا۔ میں نے پوچھا اتنا سادہ! تو جواب آیا کہ انھیں اس سے زیادہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ابھی کسی دوست کے ساتھ بیٹھے ہوں گے گھر آئیں گے خبریں دیکھتے رہیں گے اور کھانے کے وقت کھانا کھا لیں گے۔ ساری زندگی تو بچوں اور امی کے ساتھ بیٹھے نہیں جب ہمیں ان کی اشد ضرورت تھی اب جب وہ چاہتے ہیں تو ہم سب بہت مصروف ہیں تو بس ہم سب تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے آجاتے ہیں اس کمرے میں پوچھنے کے لئے کہ انھیں کچھ چائیے تو نہیں؟ اور پھر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ میں گھر آئی تو وہ کمرا بار بار نظروں کے سامنے آتا رہا پھر ذہن کو جھٹکا کہ کیا مصیبت ہے کیوں سوچے جا رہی ہوں۔

  ابو کے ایک بہت اچھے دوست شدید بیمار ہوئے تو انکی مزاج پرسی کو گئی کیونکہ ابو کے انتقال کے بعد اسپتال سے گھر پہنچی تو وہ پہلے شخص تھے جو گھر کے سامنے انتظار کرتے ملے۔ سارا محلہ سر جھکائے خاموش کھڑا تھا ، انکل نے مجھے دیکھا تو آگے بڑھے اور بولے بیٹا روئی ہو؟ نہیں روئی ہوگی تو اب رو لو۔ انکی بیماری کا سن کر میں فورا ملنے گئی وہ اندر کمرے میں آرام کر رہے تھے تو انکی بہو نے کہا کہ وہی چلی جاو۔ مجھے دیکھ کر انکل اٹھ بیٹھے اور میں سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گئی لاونج میں انکی بیگم ، شادی شدہ بیٹی داماد، دو بیٹوں اور بہووں کا ہنسی مزاق جاری تھا۔ انکل نے مجھ سے ابو کے متعلق بے شمار باتیں کیں، موضوع بدلتے رہے کبھی سیاست تو کبھی مذہب کبھی صحافت تو کبھی اسپتالوں کے معاملات زیر بحث آتے رہے ۔

اس دوران انکی بہو ایک بار آئی اور میرے سامنے مسکرا کر شربت کا گلاس رکھ گئی۔ وقتا فوقتا انکے پوتے اور پوتی آتے کوئی ڈرائنگ دکھاتے اور اس آواز پر کہ دادا کو تنگ نہ کرو باہر آو انکی واپسی کروادیتے۔ میں نے گھڑی دیکھی تو دو گھنٹے کیسے گزرے معلوم ہی نہ چلا میں نے اجازت طلب کی تو انکل نے کہا ارے بیٹا کون سا دور جانا ہے ابھی تو آئی ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا انکل دو گھنٹے ہوچکے آپکو وقت کا پتہ نہیں چلا شاید۔۔۔ تو انھوں نے بہت ٹوٹے لہجے میں کہا کہ واقعی دو گھنٹے گزر گئے اتنا تو میں روزانہ تمہارے ابو کے ساتھ بھی نہیں بیٹھتا تھا۔ اب بیٹا وقت ہی وقت ہے لیکن کوئی ساتھ بیٹھنے والا جو نہیں۔ وہ اگر یہ بات نہ بھی کہتے تو میں سمجھ جاتی کیونکہ برابر والے کمرے میں ہونے والا ہنسی مزاق، قہقہے کب سے میں سن رہی تھی اور اس کمرے میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سناٹا، مار دینے والی تنہائی کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا کہ انکل میں پھر آوں گی کچھ باتیں بعد کے لئے بھی رکھتے ہیں۔

جیسے ہی میں انکے کمرے سے نکلنے لگی تو آنٹی داخل ہوئیں اور انداز بے نیازی سے فرمایا کہ ہم نے اس لئے تمہارے انکل اور تمہیں تنگ نہیں کیا کہ پرانی باتیں آج ہورہی ہوں گی تو انھیں موقع دیا جائے اپنے دوست کو یاد کرنے کا۔ انکل نے خوشی سے جواب دیا کہ ہاں میں نے اپنے دوست کو تو یاد کیا ہی اس سے بھی زیادہ اچھا مجھے لگا کہ آج برسوں بعد مجھے توجہ سے سنا گیا میری باتیں سن کر سوال کئے گئے انکے جواب مانگے گئے۔ اسی میں اتنا وقت گزر گیا پتہ بھی نہیں لگا ۔ اتنے میں انکل بیڈ سے اترے اور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر بولے میں ذرا اسے دروازے تک چھوڑ آوں جس پر انکے بچوں کی جانب سے منع کیا گیا۔ انکل کا لہجہ یکایک بدلا اور بولے ڈسٹنگ کرتے ہوئے بھی تو چیزیں ہٹاتے ہو ناں؟ دھول جھاڑ کر وہی رکھ دیتے ہو اس روز وہ بے جان شئے خوش ہوجاتی ہے کہ چلو آج مجھے کسی نے اس قابل سمجھا تو جس نے آج دھول جھاڑی ہے اسکا شکریہ ایسے ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اسے دروازے تک چھوڑ آوں۔ گھر آکر میں نے اس روز اپنی آنکھیں بے وجہ رگڑیں ان میں پانی ڈالتی رہی جب واش روم سے باہر آئی تو چھوٹی بہن نے پوچھا کہ انکل کیسے ہیں اب ؟ میں نے کہا کبھی کبھی چلی جایا کرو یہ سوچ کر کہ ا بو کو کوئی پسند نہیں تھا ان کا کوئی دوست نہیں تھا سو ائے انکے۔

 ایک شادی کے موقع پر میں نے اپنے ایک پرانے کلاس فیلو سے سوال کیا۔ کتنا بولتے ہوں تم ذرا جو تھوڑی د یر کو زبان کو آرام دیدو کوئی ایسی چیز بھی ہے جس سے تم خوف کھاتے ہو تو چپ لگتی ہو ؟ وہ ایک دم سنجیدہ ہوا اور بولا ہاں بڑھاپے اور عورت کے بدلا لینے سے۔ میں چونکی تو اس نے کہا مجھے یہ سوچ کر کبھی کبھی بڑا خوف آتا ہے کہ میں اپنی بیوی یا اولادکے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہ کر بیٹھوں کہ اس وقت جب میں بوڑھا ہوجاوں، میری طاقت کم ہوجائے، آواز کی گرج تھم جائے تب مجھے گھر کے کسی کونے میں میرے نہ چاہنے کے باوجود تنہا کر کے ماضی میں جینے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ تمہیں پتہ ہے میرے ابا اب ایسے رہتے ہیں۔

امی کے پاس سب ہیں ہر بچہ ان سے اپنا مسئلہ شئیر کرتا ہے۔ بہن ہو یا بھائی جب اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے ہیں تو پہلے ابو کے کمرے میں جاکر سلام کرتے ہیں سرسری حال احوال پوچھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہم ابھی آئے اور پھر وہ امی کے ساتھ جاکر ایسا بیٹھتے ہیں کہ واپسی پر ہی اٹھتے ہیں کبھی کبھی ابو کو جاتے ہوئے خدا حافظ کردیتے ہیں یا ان کو دیوار کی طرف کروٹ لئے دیکھ کر لوٹ جاتے ہیں۔ اس میں عورت کا بدلہ کہاں سے آگیا؟ میں نے پوچھا۔ اس نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولا ارے پگلی کمزور ہمیشہ کمزور نہیں رہتا۔ اس کا وقت بھی آتا ہے اور یہ جو عو رت ذات ہوتی ہے ناں یہ اپنے وقت کے آنے کا بڑا ا نتظار کرتی ہے جس روز مر د کی طاقت ختم ہوتی ہے وہ ایک لچکدار ٹہنی جیسا ہونے لگتا ہے اورپھر یہ سوچنے لگتا ہے کہ جوانی کی سرکشی کے دن گئے اب بڈھا ہوگیا ہوں نرمی سے رہوں گا، ماضی کی غلطیوں کی تلافی کروں گا ، اپنی عورت سے اب دلجوئی کروں گا تب تک مسند پر وزیر و مشیر عورت کو براجمان کروا چکے ہوتے ہیں۔

وزیر بتاتے ہیں ماں تمہارے ساتھ فلاں وقت میں بادشاہ نے زیادتی کی تھی، تیری توہین کی تھی، یاد کر تیر ا صبر آزمایا گیا تھا، تجھے حقیر جانا گیا تھا، تیرا سر بار بار جھکایا گیا تھا۔ خود کو اکیلا نہ جان اب ہم تیری طاقت ہیں ، اب تیرا د ور شر وع ہوچکا اب تیری حکومت ہوگی ، اب تاج اچھالنے کے دن آ چکے ، اب قانون بدل چکے پھر عورت بدلہ لیتی ہے کچھ چھوڑ جاتی ہیں کچھ باوفا رحم دل یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ظالم حکمران جو اب ناتواں ہوچکا اس کو گھر کے کسی کونے میں جگہ دیدی جائے و ہ اس سے شکو ہ بھی نہیں کرتی بس دوری اور تنہائی کا خاموش زہر روز اس میں انڈیلتی جاتی ہے۔

کبھی دیکھنا کتنے ہی گھر ملیں گے جہاں ایک کمرے سے قہقوں کا نہ تھمنے والا طوفان ملے گا او ر دوسرے کمرے میں موت کا سا سناٹا ملے گا۔ مجھے اس سے خوف آتا ہے میں ایسے نہیں رہنا چاہتا کیونکہ ہر ا یک کا و قت آتا ہے اور عو رت کا جب وقت آئے تو وہ کچھ بھولی نہیں ہوتی۔ وہ بولے جارہا تھا اور مجھے اپنی دوست کے گھر میں اسکے والد کا کمرہ ذہن میں گھومنے لگا تو کبھی مسز احمد کا اپنے شوہر کے انتقال کے بعد ان کے لئے کہے جانے والے الفاظ کانوں میں گونجنے لگے ۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar