ایک سندھی علی نواز چانڈیو کا خط


اس حادثے کے بعد کراچی سے واپس دادو آ گئےاور مزوری کرنے لگ گئے۔ زمیندار صاحب بہت دین دار آدمی ہیں۔ پہلے ان کی زمیں پر کا م کرتے تھے تو عزت کی روٹی مل جاتی تھی۔ مگر مجبوری دیکھو کہ اب زمین پر پانی ہی نہیں آتا۔ پانچ سو ایکٹر کے مالک ہیں، پر زمین بنجر۔ بہت اداس رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دریا بادشاہ ناراض ہے۔ سائیں بے گناہوں کو پھانسی چڑھائیں گے تو دریا بادشاہ نے تو ناراض ہونا ہے نا؟ پر دکھ یہ ہے کہ کرتا کوئی ہے اور بھرتا کوئی ہے۔ اور سائیں سچ پوچھیں تو سیاست سے دل بہت تنگ پڑ گیا ہے۔ اللہ سائیں آصف صاحب کو وڈی حیاتی دے۔ بھٹو سائیں کی بیٹی کا سائبان بنا رہا۔ ظالموں نے اس کو بے گناہ گیارہ سال قید میں رکھا۔ سزائیں دیں، پر سچا بلوچ مرد ہے، نہ ظلم کے آگے جھکا نہ ظالموں کے کہنے پر ہماری بی بی سے رشتہ توڑا۔ آپ دعا کریں کہ بی بی کے بچے ان ظالموں کے شر سے محفوظ رہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب بھٹو کو ووٹ نہ دو۔ کیا ملا ہے بھٹو کو ووٹ دے کر؟ پر سائیں کیا کریں ضمیر نہیں مانتا۔ بھٹو کے خون سے غداری نہیں ہوتی۔

یہ تو زندگی ہے سائیں، ایسے ہی چلتی رہے گی مگر آج ایک بہت پریشانی میں گھر گیا ہوں سائیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی انور مقصود صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نے کئی بینکوں سے بڑا قرض لیا ہے اور اس قرض کا بیاج بھی بہت جمع ہو گیا ہے اور اب میں مر چکا ہوں۔ سائیں میں حلفیہ آپ کو کہتا ہوں کہ میں زندہ ہوں جو مزار آپ نے دیکھا ہے کسی اولیا، کسی بزرگ، کسی درویش کا ہو گا۔ ہم گناہگار صوفی، ہمیں دو گز زمین بھی سندھ دھرتی پہ قبر کے لئے نصیب ہو جائے تو لاکھ کرم اس مالک کے۔ بچوں سے کہہ دیا ہے کہ جب میں مروں تو میری قبر پر میرے مرشد شاہ سائیں کا یہ بیت لکھوا دینا:
سائین سدائین ڪرین مٿی سنڌ سڪار
دوست مٺا دلدار عالم سڀ آباد ڪرین

اور کچھ نہیں چاہیے ہم فقیر کو۔ باقی رہی بات قرضے کی تو، سود بیاج سے تو سائیں میں نے اپنے بچوں کو بھی سختی سے منع کر رکھا ہے کہ مرتے مر جانا ادھار نہ لینا۔ کسی سود خور کے ہتھے نہ چڑھنا۔ اور میری اولاد ہے بھی نیک سرکار۔ ساہوکاروں سے بچ کر رہتی ہے۔ سائیں میرا تو کسی بینک میں اکاونٹ بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میرے کسی بزرگ نے کسی زمانے میں کھولا ہو۔ شاید ان دنوں کی بات ہو جب سندھ بہت امیر تھا۔ پانی تھا۔ اناج تھا۔ لوگ محبتی تھے۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں اکٹھے روتے ہنستے تھے۔ مگر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے تو اپنی زندگی میں، اپنے بزرگوں کو بھی بہت محنت سے حق حلال کی روٹی کماتے دیکھا ہے۔ سائیں لگتا ہے کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ گزارش کرنا تھی کہ کوئی خط کوئی پتر کوئی ریکارڈ۔ ۔ ۔ کچھ مل جائے جس میں قرضہ لینے کا کوئی ثبوت ہو تو بات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ غریب آدمی ہوں صاحب تھانے کچہری سے بہت ڈرتا ہوں۔ جب تک آپ کی طرف سے جواب نہیں آئے گا پریشانی میں نیند نہیں آئے گی۔ ہم بہت پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں سائیں کسی وکیل سے مشاورت کریں گے۔ پر سائیں حساب بلکل سیدھا سادھا صاف بھیجیئے گا۔ گول مول باتوں سے باتوں کہاں کی کہاں چلی جاتی ہے۔
سندھ وسے، پاکستان ترقی کرے۔

جواب کا منتظر ایک سندھی
( علی نواز چانڈیو، بقلم خود)

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2