خود مسلط کردہ ”ہائبرڈ وار“ سے نجات ضروری ہے


اظہار رائے پر پابندی لگا کر اگر تنقید کرتی آوازوں کا گلا گھونٹا جا سکتا تو شاید دنیا میں صرف ریاست اور قدامت پسندوں کی آوازیں ہی باقی رہ جاتیں۔ ریاستی بیانیوں کو تشکیل دینے والے اگر ان بیانیوں کی بنیادیں سچ، دلیل اور منطق کے گارے کے سہارے تعمیر کریں تو پھر انہیں کسی بھی قسم کی تنقید یا مخالف آوازوں کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ لیکن کمزور اور جھوٹ پر مبنی بنیادیں تنقید یا مخالفت کو سہنے کی استعداد نہیں رکھتیں۔ پاکستان میں آج کل پھر سے سوال اٹھانے والی آوازوں کو چپ کروانے کا عمل جاری و ساری ہے۔ انتہائی خاموشی سے پہلے مین اسٹریم میڈیا کو سینسر شپ کی زد میں لایا گیا اور اب ویب اور سوشل میڈیا کو بھی اس سینسر شپ کی زد میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔

بڑے بڑے اخبارات اور میڈیا ہاوسز ایسی تحاریر کو سرے سے ہی چھاپنے سے انکار کر رہے ہیں جو ملکی سلامتی کے خود ساختہ ٹھیکیداروں سے ان کے سیاسی عمل میں ملوث ہونے اور غلط بیانئیے کے حوالے سے سوالات اٹھاتی ہیں۔ جامعات میں صحت مند مکالموں پر بھی خاموش پابندی عائد کی جا چکی ہے اور نافرمان جامعات کے چانسلرز اور وائس چانسلرز کو عدلیہ کے تعاون سے ملازمتوں سے برخاست کیا جا رہا ہے۔ ایسی ویب سائٹس کو بند کیا جا رہا ہے جو ”دل یزداں“ میں کانٹے کی مانند کھٹکتے ہوئے ریاست سے سوال ہوچھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

اسے اگر ایک نظر نہ آنے والا احتساب کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ منتخب حکومت کو مفلوج بنانے کے بعد عدالتوں سے حکومت کے امور چلوائے جا رہے ہیں۔ زبان بندی کے لئے سابقہ آمرانہ ادوار کے روایتی ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں۔ چونکہ عسکری حلقے ”ہائبرڈ وار“ کے حوالے سے تشویش رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں پاکستان اس وقت ” ہائبرڈ وار ” کا شکار ہے اس لئے موجودہ حالات میں جنگی بنیادوں پر اقدام اٹھاتے ہوئے ریاستی بیانیوں اور پالیسیوں پر تحفظات رکھنے والوں کو یا تو ملک دشمن قرار دیا جانا ضروری ہے یا پھر بیرونی ایجنٹ۔ اس سوچ پر صدق دل سے ایمان لاتے ہوئے بڑے بڑے صحافتی برج اور قلم کار ”ہائبرڈ وار“ اور اس کی تکنیک سے عوام الناس کو آگاہ کرنے میں مصروف ہیں اور زبان و بیان پر پابندی کو وقت کی ضرورت قرار دینے کی ہر ممکن سعی کر رہے ہیں۔

یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ یہ ہائبرڈ وار کا تصور قریب قریب وہی ففتھ جنریشن وار تصور ہے جس کا راگ زید حامد اور اوریا مقبول جان جیسے ”سند یافتہ“ محب وطن حضرات کب سے الاپ رہے ہیں۔ اس تصور کے مطابق دشمن ملک کو فتح کرنے کے لئے عوام کو متنفر کرتے ہوئے اس کی معیثت، اس کے امن و امان اور ذرائع ابلاغ پر قبضہ جما کر بنا ایک گولی چلائے اسے زیر کر لیا جاتا ہے۔ چونکہ ”پیرانویا“ اور ” ہالوسینیشین ” کے امراض کا ہم اجتماعی طور پر شکار ہیں اس لئے ایسی تھیوری یا سازشی مفروضے کو آبادی کے ایک بڑے حصے کو بیچنا انتہائی آسان کام ثابت ہوتا آیا ہے۔ وگرنہ یہ جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ امداد کا کشکول تھامنے والے اور کرائے کی جنگیں لڑنے والے ملک کو کسی بیرونی دشمن یا ہائبرڈ وار کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے۔

رواز اول سے ہماری مقتدر قوتیں بیرونی دشمن اور جنگوں کا راگ الاپ کر ملک کے بیشتر وسائل دفاع پر خرچ کرتی آئی ہیں۔ بیرونی دشمن اور سازشوں کا تصور وہ ڈھال ہے جو نادیدہ قوتوں کو ہر دور میں اپنے مخالف بیانئیے اور اس کے علمبرداروں کو کچلنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی تصور کے دم پر ہمارے سماج میں قدغنوں کے پہرے لگا کر صرف قدامت پسندی اور شدت پسندی کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ شدت پسندی کا خمیازہ فوجی جوانوں اور نہتے سویلینز نے اپنی جانیں گنوانے کی صورت میں بھگتا ہے جبکہ معاشرے میں شدت پسند رویوں کی آمیزش کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا ہے۔

ریاست پاکستان میں عقائد کے تاجروں نے مذہب جبکہ ایسٹیبلیشمنٹ نے دفاع کے نام پر سلامتی و خارجہ پالیسی کو یرغمال بنانے کے بعد تمام تر توانائیاں اس نکتے پر مرکوز رکھی ہیں کہ وطن عزیز کے طول و عرض میں ہمیشہ ایک خوف کی فضا قائم رہے اور ایک ان دیکھے دشمن کا تصور سماج کو خوف اور ڈر میں قید رکھے تا کہ سلامتی کے نام پر دفاع کی ضرورت بھی ہمہ وقت محسوس ہوتی رہے۔ اب مسئلہ کچھ یوں ہے کہ عصر حاضر کی نئی نسل کا ایک حصہ اس ڈر اور خوف کی فضا تلے زندگی بسر کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہ نسل گوگل اور ٹویٹر کے دور میں پروان چڑھی ہے اچھی جامعات سے تنقیدی سوچ کا تصور لے کر باہر نکلی ہے اب اس کو نور جہاں کے ملی نغمے سنا کر نہ تو حب الوطنی کا چورن بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو مذہب کے نام پر بیوقوف بناتے ہوئے اندھی تقلید پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔

اظہار رائے کو جرم ٹھہرانے کے زمانے بیتے بہت عرصہ گزر گیا ہے اور مقتدر قوتوں کو اب اس امر کا ادراک ہو جانا چائیے کہ پابندیوں یا جبر سے نہ تو بیانیوں کو زبردستی تھوپا جا سکتا ہے اور نہ ہی مخالف نظریات کو ان کی مدد سے کچلا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات اور اظہار رائے پر پابندی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے خود ایک جنگ اپنے اوپر مسلط کی ہوئی ہے۔ یہ جنگ ترقی، اعتدال پسندی اور جمہوری اقداروں کے خلاف ہے۔ بدقسمتی سے ریاستی اداروں کا گٹھ جوڑ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ 21 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک کو ایک رہوڑ کی مانند کسی سمت میں ہانک کر چلانا ناممکن ہے۔

بیرونی دنیا کی سازشیں تو نہیں البتہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسٹیبلیشمنٹ نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے اپنے ہی باشندوں پر ایک ”ہائبرڈ وار“ تھوپ رکھی ہے۔ جونہی معیشت بہتری کی طرف جاتی ہے اور جمہوریت پنپنے لگتی ہے تو فورا منتخب نمائندوں کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ خود ہی دھرنوں کو سپانسر کر کے امن و امان کی صورتحال کو کشیدہ کیا جاتا ہے اور پھر ڈس انفارمیشن اور پراپیگینڈے کے دم پر کبھی احتساب کبھی بیرونی سازشوں کے نام پر رائے عامہ کو مینوفیکچر کیا جاتا ہے۔ شاید ہم دنیا کی وہ واحد ریاست ہیں جس نے خود اپنے اوپر ہی ”ہائبرڈ وار“ مسلط کی ہے اور جو اپنے ہی سماج کو گونگا اور بہرہ بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔

مقتدر حلقوں سے عرض صرف اتنی ہے کہ ریاست پاکستان اور اس میں بسنے والے باشندے گنی پگ نہیں ہیں جن پر ہر دور میں ایک ہی قسم کے تجربے کو مختلف اشکال میں دہرایا جائے اور ہر بار ایک اور نئے تجربے کی نوید سنا دی جائے۔ عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ جانتے بوجھتے بھی کہ یہ جنگ ضیا الحق اور مشرف کی غلط پالیسیوں اور ایسٹیبلیشمنٹ کے اہنے ہی نام نہاد سٹریٹجیک اثاثوں کے باعث چھڑی تھی، اہنے جوانوں اور فوج کو بھرپور سپورٹ کیا۔ لیکن عوامی تائید کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسے اندھی عقیدت سمجھ کر خود کو مقدس گائے کے رتبے ہر فائز کر لیا جائے اور پھر سے اقتدار کی بساط پر سانپ سیڑھی کا کھیل رچا لیا جائے اور عوام کے اجتماعی شعور پر اپنی مرضی مسلط کی جائے۔

ایسٹیبلیشمنٹ ریاست کے امور میں ایک اسٹیک ہولڈر ضرور ہے لیکن اسے ریاست کو اپنی مرضی سے چلانے کا حق نہیں ۔ یہ حق عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے اور رہے گا۔ اسی طرح کون کب کہاں اور کیسا بولے گا، یا کیسے لکھے گا اس کا اختیار بھی نہ تو کسی منتخب حکومت کے پاس ہوتا ہے اور نہ ہی دفاعی یا مذہبی اشرافیہ کے پاس۔ یہ اکیسویں صدی ہے اس میں منطق اور دلیل سے دنیا فتح ہو جاتی ہے جبکہ زور زبردستی سے محض وقت اور وسائل کے زیاں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ شاید ہمیں ناداستگی میں اپنے اوپر خود مسلط کی گئی اس ”ہائبرڈ وار“ سے نجات کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).