رکن قومی اسمبلی کی ستر کروڑ کی خرچی


حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت ہوئی، جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ اس دفعہ سینیٹ انتخابات خصوصی اہمیت اختیار کرگئے کہ ماضی کی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے علاوہ تحریک انصاف نے بھی سینیٹ انتخابات میں بھر پور حصہ لیا۔ تبدیلی کی امید رکھنے والوں کو توقع تھی کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی صاف و شفاف طریقے سے جماعتی احکامات کے مطابق اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں گے تاکہ تبدیلی کے نعرے میں مزید کچھ جان پڑسکے اور تبدیلی نظر آئے۔ لیکن توقعات کے برعکس تحریک انصاف کی انتخابی حکمت عملی جہاں سیاسی مفادات اور جوڑ توڑ پر مبنی نظر آئی، وہیں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی پر بھی ووٹ بیچنے کے الزام لگے اور یہ الزامات دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کی قیادت نے خود بھی اپنے ارکان اسمبلی پر لگائے۔ دیگر جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے بھی اپنے ووٹ بیچے۔ (ن) لیگ کی رہنما عظمی بخاری تو اپنی غیر متوقع شکست اور چوہدری سرور کی غیر متوقع کامیابی کے بعد بہت دلگرفتہ نظر آئیں اور جذبات سے مغلوب ہوکر روہانسی آواز میں اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی پر ووٹ بیچنے کا خدشہ ظاہر کیا۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی سینیٹ انتخابات کے بعد دھواں دار بیانات جاری کیے لیکن اپنے ارکان اسمبلی کے خلاف تحقیقات اور کارروائی سے گریزاں ہیں کیونکہ عام انتخابات سر پر ہیں اور فصلی بٹیریں کبھی اس سیاسی جماعت تو کبھی کسی دوسری سیاسی جماعت کی منڈیر پر جا بیٹھنے کو پر تول رہی ہیں، ایسی صورت میں ارکان اسمبلی کی ناراضگی مول لینا، دانش مندی کا تقاضا نہیں، یوں (ن) لیگ کی قیادت دو چار بیان داغنے کے بعد چپ ہورہی۔

لیکن صوبہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی قیادت نے وزیراعلی اور اسپیکر اسمبلی کو ذمے داری سونپی کے ووٹ بیچنے والے ارکان اسمبلی کا پتا لگائیں۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے قائد نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ووٹ بیچنے والے ارکان اسمبلی کے نام میڈیا کے سامنے ظاہر کیے۔ تحریک انصاف کے اس عمل کو جہاں عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی، وہیں ذرائع ابلاغ میں بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ لیکن ایک سوال یہ بھی اٹھا کہ ووٹ بیچنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف تو کارروائی ہورہی ہے لیکن ووٹ خریدنے والے نو منتخب سینیٹر کے خلاف کسی تحقیقات کا اشارہ نہیں ملا، یقینا اس کو دہرا معیار اور سیاسی مفاد پرستی اور مصلحت پسندی کہا جائے گا۔

سینیٹر، قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین عوام کے ٹیکس کے پیسے پر سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں اور عوام کی خون پسینے کی کمائی کا جس طرح سے بے دریغ استعمال کرتے ہیں، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اراکین اسمبلی کو عوام کی خدمت کی بجائے، اپنے سیاسی اور مالی فوائد زیادہ عزیز ہوتے ہیں کیونکہ عمومی طور پر کروڑوں روپے میں ٹکٹ خرید کر اور بھاری سرمایہ کاری کرکے وہ رکن اسمبلی منتخب ہوتے ہیں۔ کراچی کے مضافاتی علاقے کے ایک رکن قومی اسمبلی جب (ن) لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، تو کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عذیر بلوچ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعوی کیا کہ قومی اسمبلی کی یہ نشست (ن) لیگ نے ان کی حمایت سے جیتی ہے۔ (ن) لیگ کی سندھ سے یہ واحد نشست تھی، اس لیے منتخب رکن اسمبلی کو وزیر مملکت بھی بنایا گیا۔

وزیر مملکت بننے کے بعد بھی وزیر صاحب مزید آؤبھگت کے متمنی تھے لیکن مسلم لیگ کی قیادت نے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، جس سے دل برداشتہ ہوکر رکن اسمبلی نے استعفی دے دیا اور ضمنی انتخاب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انتخاب کے وقت سیاسی جوڑ توڑ، برادری ازم کے ساتھ بھاری سرمایہ کاری بھی درکار ہوتی ہے۔ (ن) لیگ اس بھاری سرمایہ کاری کے لیے تیار نظر نہیں آئی اور (ن) لیگ کے مقامی رہنما، جو انتخاب میں حصہ لینا چاہ رہے تھے، ان کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں کی کہ وہ انتخاب میں حصہ لے سکیں۔

ضمنی انتخاب سے قبل ایک کارنر میٹنگ میں سابق رکن اسمبلی جب (ن) لیگ کی قیادت کی بے حسی کا رونا رو رہے تھے، تو جو مقامی رہنما (ن) لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا چاہ رہے تھے، نے مداخلت کی اور سوال پوچھا کہ آپ کو ستر کروڑ روپے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے دیے گئے تھے، اس کا کیا بنا؟ تو موصوف نے فرمایا کہ وہ تو میری خرچی تھی۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ موصوف سے خرچی کی تعریف سن لینے کے بعد بھی برادری ازم کی بنیاد پر انتخاب ہوا اور وہ ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوکرایک دفعہ پھر اپنی خرچی لینے اسمبلی جا پہنچے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ارکان اسمبلی کتنی بھاری سرمایہ کاری کرکے منتخب ہوتے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ فنڈز کی توقع رکھتے ہیں کہ خرچی پوری ہو۔ ایسی صورت میں ارکان اسمبلی کے ووٹ بیچنے پر کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).