منظور پشتین! احتیاط جناب والا احتیاط


منظور پشتین نے لاہور میں بھی جلسہ کردیا اور کراچی کے جلسے کے لیے تاریخ بھی دے دی۔ منظور نے اس سے قبل کوئٹہ اور پھر پشاور میں بھی جلسہ کیا تھا۔ پشتون تحفظ مومنٹ بنیادی طورپر وزیرستان میں آپریشن کے بعد عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے اٹھائی گئی تحریک ہے۔ جسے باہر کی دنیا میں نقیب محسود کے قتل پر ہونے والے احتجاجی دھرنے کے بعد شہرت ملی ہے۔ اندرون و بیرون ملک شہرت کا عروج پانے کے بعد منظور کے بنیادی مطالبات اب بھی وہی ہیں یعنی گمشدہ افراد کی بازیابی اور عدالتوں میں حاضری، چیک پوسٹیں اور کرفیووغیرہ۔ حالیہ خطاب میں انہوں نے میڈیا اور مخالفین سے کچھ مزید صاف صاف باتیں کی ہیں۔ منظور کے الفاظ بہت بے لچک اور لہجہ بہت دو ٹوک ہے۔ ذو معنی الفاظ کا استعمال کرکے وہ رسمی سیاسی گفتگو نہیں کرتے اور شاید یہی چیز کچھ لوگوں کو چھبتی محسوس ہوتی ہے۔ منظور کے مطالبات تمام تر ایسے ہیں کہ جس سے کسی بھی شخص کو اختلاف نہیں ہے۔

پشتون ہو یا غیر پشتون ہر شخص اس کی حمایت کرتا ہے۔ منظور پشتین سے اختلاف کرنے والوں کا اختلاف منظور اور ان کے رفقاء کے ان جذباتی نعروں، تقریروں اور اس کے لہجے سے ہے جوانہوں نے فوج اور پنجاب کے خلاف بروئےکار لائے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں صوبائیت، لسانیت اور قوم پرستی کےجذبات فروغ پاتے ہیں جس کا نتیجہ بعض اوقات نفرت اور خانہ جنگی تک جاتا ہے۔ اور کچھ خدشات جو لوگوں میں سر اٹھارہے ہیں وہ بیرون ملک منظور کے حق میں قوم پرست پشتونوں کےمظاہرے ہیں۔ جس میں افغانستان کے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ڈیورنڈ لائن، پاک فوج، آئی ایس آئی، پنجاب اور مجموعی طورپر پاکستان کی سالمیت کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے اور تقریریں کیں۔

یہ سب تقریریں اور نعرے ان خدشات کو تقویت بخشنے کے لیے کافی ہیں جو غیر پشتونوں یا عام پاکستانی پشتونوں کے دلوں میں اٹھتے ہیں۔ سب کی زبانوں پر یہی سوال ہے کہ آگے جاکر یہ تحریک کیا شکل اختیار کرے گی؟ یہ مزید آگے بڑھ کر کسی علیحدگی پسند یا پشتونستان تحریک کی بات کریں گے جیسا کہ تحریک کے بیرون ملک حامی نعرے لگارہے ہیں۔ یا یہ پارلیمانی سیاست میں حصہ لے کر اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

منظور پشتین کی اب تک کی گفتگو تو یہ ہے کہ اگر ان کے مطالبات حل ہوجائیں تو وہ واپس گھر میں بیٹھ جائیں گے۔ تاحال وہ کسی تشدد کی طرف بھی مائل نظر نہیں آتے، وہ عدم تشدد کے حامی ہیں اور پارلیمانی سیاست کی جانب جانے کی بھی شدت سے تردید کررہے ہیں۔ مگر ایسا یقین کرنا مشکل ہے، جو شخص ایک بارقوم کی امیدوں کا مرکز بن جائے تو اس سے لوگوں کو آگے بھی بہت سی توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں۔ جو ایک بار ہجوم کے بیچ آجائے اس کا پھر تنہائی میں گوشہ نشین ہوجانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اور اگر مطالبات حل نہیں ہوجاتے تو ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اس حوالے سے تاحال کچھ نہیں کہاجاسکتا۔

سوشل میڈیا پر بیرون ملک ہونے والے احتجاج کی جو ویڈیوز وائرل ہیں جس میں منظور پشتین کے حامی ان کی مخصوص ٹوپی پہنے ان کی تحریک کے حق میں نعرے لگارہے ہیں دراصل افغانی شہری ہیں۔ ان کے ہاتھ میں افغانستان کے جھنڈے ہیں۔ خواتین کے دوپٹےاور مردوں کے کپڑوں میں قندھاری گلے ہرجگہ افغانستان کے جھنڈے کے رنگ نظر آتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن، پاکستان، پاک آرمی، آئی ایس آئی اور پنجاب کے بارے میں ان کا شدت پسندانہ رویہ اور نعرہ وہی روایتی افغانی رویہ ہے جو گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان کے بارے میں انہوں نے روا رکھا ہے۔

منظور پشتین کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ منظور پشتین کو حامی پاکستان اور افغانستان دونوں میں ملے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ عنوان ہی ایسا ہے کہ سارے پشتونوں کے لیے اس میں دلچسپی کا سامان موجود ہے، افغانستان کے پشتونوں میں ویسے بھی قوم پرستی کا عنصر زیادہ ہے۔ مگر جیسے جیسے منظور پشتین آگے بڑھتے جائیں گے ان کی پالیسی اور روڈ میپ واضح ہوتا جائے گابہت سے نئے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہوں گی اور بہت سے لوگ مایوس ہوکر پیچھے ہٹتے جائیں گے۔

منظور کے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک پشاور کے پروگرام میں شرکت نے بہت سے لوگوں کو مایوس کردیا۔ بہت سے لوگ پیچھے ہٹ گئے اور بہت سے لوگوں کو امیدیں وابستہ ہوئی ہیں۔ مذہبی طبقہ طالبان کے مظالم کا بھی شکار رہا ہے، آپریشن کی دربدریاں انہوں نے بھی دیکھی ہیں، گمشدہ افراد میں ان کے بھی رشتہ دار شامل ہیں۔ اسلام آباد کے احتجاجی دھرنے میں مدارس کے طلبہ بھی شریک رہے۔ منظور پشتین اگر جامعہ حقانیہ گئے اور ان سے اپنے جلسے کی کامیابی کے لیے شرکت کی درخواست کی ہے تو یہ منظور کی دور اندیشی ہے کہ وہ وزیرستان اور پشتونوں کے ایک بڑے طبقے کو اپنی تحریک کا حصہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ اپنی تحریک کو پشتون قوم پرستوں کے ہاتھوں ہائی جیک نہیں کرنا چاہتے۔

منظور نے اپنی تحریک سیکولر قوم پرستوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے تو بچالی مگر آگے بھی ان کے لیے تواز ن کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہوگا۔ لیڈر کی زندگی کا ہر قول وفعل انتہائی احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے، پھر پشتونوں کی قیادت کہ جو گزشتہ چار دہائیوں سے دو عالمی طاقتوں کی بیچ رسہ کشی کے لیے میدان بنے ہوئے ہیں۔ جہاں آکر دو عالمی طاقتوں نے اپنا اکھاڑا قائم کیا ہوا ہے، اور خطے کے دیگر بہت سے ممالک رِنگ سے باہر تماشائیوں میں کھڑے ہیں اور اپنے اپنے اتارے ہوئے پہلوان کو ہلا شیری دے رہے ہیں۔ ایسے خطے کی قیادت بجا طورپر آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ قیادت جس تدبر، احتیاط، بیدار مغزی اور نزاکت کا تقاضا کرتی ہے منظور کو اس میں ذرہ برابر کمزوری سے بھی احتراز کرنا ہوگا۔ یہ تنی ہوئی رسی پر ننگے پیر چل کر کرتب دکھانے سے زیادہ مشکل کام ہے کہ یہاں ذرہ بھر توجہ بھٹکی وہاں عوام کوساتھ لیے پھسل کر نیچے بہت نیچے جاگرے۔

منظور نے بذات خود فوج کے خلاف نعرے لگائے، ان کی تحریک کی صف اول کی قیادت نے پنجاب اور فوج کو ہدف تنقید بنایا اور اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ منظور پشتین خود اسے غلطی قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ غلطی کسی اور سے سرزد ہو تو قابل برداشت بھی ہوتی ہے اور اس کا نقصان بھی شاید اتنا نہیں ہوتا، جس تحریک میں بیرون ملک سے بھی لوگ اخلاقی اور احتجاجی حصہ ڈالتے رہے ہوں خصوصا افغان شہری جو برملا پاکستان کی سالمیت کے خلاف نعرے لگاتے رہے ہوں اس میں اس طرح کی غلطیاں ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ ان غلطیوں کی تلافی شاید بعد میں کی جانے والی معذرتوں سے ممکن نہیں ہوتی۔ تحریک کے ایک رہنما کی اشتعال انگیز اور منافرانہ گفتگو کی تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے دکھ زیادہ اٹھائے ہیں، ان کے گھر سے درجن بھر جنازے نکلے ہیں۔ اس لیے اگر وہ تھوڑے مشتعل ہوگئے تو یہ بڑی بات نہیں، انہیں معذور سمجھا جائے۔

دکھ اور درد کی جہاں تک بات ہے تو ٹھیک ہے۔ ہر انسان کو ان سے ہمدردی ہونی چاہیے اور ہے۔ ان کے دکھ اور درد کا احساس کیا جانا چاہیے مگر ایسے شخص کو سٹیج پر مدعو کرکے تقریر نہیں دینی چاہیے۔ سٹیج جس برداشت، تحمل، مدبرانہ فیصلوں اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا تقاضا کرتا ہے درد سے مشتعل اور نڈھال شخص کی فکر میں وہ توانائی نہیں ہوتی۔ جس سٹیج سے آپ پشتونوں کو ایک نئی تحریک اور نئی قیادت دے رہے ہیں وہاں سے لسانی منافرت اور آئین وریاست کے خلاف کھلم کھلا نعرے تقسیم کرنے لگیں۔ جو حقوق مانگنے نکلے ہیں انہیں حقوق کی بجائے ایک نئی جنگ میں دھکیل دینے کا سامان کررہے ہوں تو پھر کیا نتیجہ نکلے گا اس تحریک کا؟

تحریک کے حامی ہر ملک اور ہر خطے میں پائے جاتے ہیں، وہ ہر طرح کے نعرے لگائیں گے اور ہر طرح کی تقریریں کریں گے مگر منظور پشتین کو پاکستان کے اندر یہاں کے آئین، ریاست اور سیکیورٹی اداروں کی صورتحال کے تناظر میں یہاں کے پشتونوں کے حقوق کوفوکس کرناہوگا۔ یہاں تحریک کو مزید کسی اور بحران کا سبب بننے سے بچانا ہوگا۔ منظور کی تازہ ترین گفتگو میں انہوں نے کہا بھی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر حقوق کی بات کرتے ہیں۔ پاکستانی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے مطالبات رکھتے ہیں۔ ان کی یہ گفتگو حوصلہ افزا ہے۔ ان کے اس موقف سے بیرون ملک کے ان کے وہ حامی ضرور مایوس ہوں گے جنہوں نے اس کی آڑ میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف نعرے لگائے۔

ایک بات منظور پشتین کی اپنی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ بار بار دہشت گردی کے پیچھے فوج کی بات کرتے ہیں۔ ایک خلط مبحث پیدا ہوتا ہے روس کے خلاف افغان جہاد، افغان طالبان کی تحریک اور پھر ٹی ٹی پی۔ کس کے پیچھے فوج تھی؟ کس کو فوج نے پیدا کیا یا کس کے خلاف فوج نے آپریشن کیا؟ منظور پشتین کو اس حوالے سے الگ تفصیلی گفتگو کرنی چاہیے۔ ان کا نقطہ نظر کیا ہے اور کیوں ہے؟ چند ایک فوجی رہنماؤں کے کلپ دکھاکر لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

منظور مسائل اور قیادت کی ذمہ داریوں کے بیچ میں کھڑے ہیں، انہیں احتیاط سے ہر قدم اٹھانا ہوگا۔ ہر قدم پر اپنی قائدانہ ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے چلنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس تحریک کے ساتھ میری ضعیف العمر مائیں اور بیوہ خواتین کی امیدیں وابستہ ہیں، جس کے ہر جلسے میں لوگ اپنے گمشدہ عزیزوں کی تصاویر اس امید کے ساتھ لے کر آتےہیں کہ ممکن ہے واپسی تک وہ بھی واپس آچکے ہوں، وہی تحریک پشتونوں کے لیے ایک نئی خون کی ہولی کا سامان کرے۔ یہ تحریک ایک اور عذاب بن کر پشتونوں پر ٹوٹے۔ اب تک جولوگ پشتونوں کے مطالبات کے حق میں بول رہے ہیں کل کو وہ اپنے کیے شرمندہ نظر آئیں۔ اور پھر پشتونوں کو اپنے حق میں بولنے والا بھی کوئی نہ ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).