کیا  انتخابات واقعی بروقت ہوں گے؟


ملک میں تمام اسمبلیاں مئی کے آخر میں تحلیل ہو جائیں گی اور عبوری حکومتیں قومی اور صوبائی معاملات اور انتخابات کی نگرانی کا کام شروع کریں گی۔ اس حد تک تو اب بات یقینی محسوس ہوتی ہے کہ موجودہ حکومتیں  اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں گی اور عبوری حکومتیں بھی آئین کے تقاضوں کے مطابق قائم ہو جائیں گی لیکن اس کے بعد کیا حالات رونما ہونے والے ہیں ، اس کے بارے میں کوئی بھی پاکستانی شہری یا مبصر یقین سے کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سپریم  کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران  جمہوریت کے تحفظ کی بار بار یقین دہانی کروائی ہے۔ اس سے پہلے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ فوج ملک کے سیاسی انتظام میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ان یقین دہانیوں کے باوجود عبوری حکومت کی مدت اور ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے شدید بدگمانی اور تشویش پائی جاتی ہے۔ جوں جوں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے خلاف ریفرنسز کی سماعت  اختتام کو پہنچ رہی ہے،  ایک طرف نواز شریف اور مریم نواز  لب و لہجہ سخت اور درشت ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف عبوری حکومت کی آئینی تین ماہ کی مدت میں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

نواز شریف نے کل لندن میں اپنی علیل اہلیہ کی عیادت کے بعد واپسی پر احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے باتیں  کرتے ہوئے  چیف جسٹس ثاقب نثار کو ’ بد ترین آمر‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کے دور میں جس طرح بائیس کروڑ عوام کی آواز کو دبایا جارہا ہے، اس قدر جبر تو فوجی آمریتوں کے دور میں بھی نہیں ہؤا۔ نواز شریف نے چیف جسٹس کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ ملک میں جوڈیشل  مارشل لا نہیں لگ سکتا۔ ان کاکہنا تھا کہ عدالتیں جس طرح اپنا کام چھوڑ کر حکومتی امور میں مداخلت کا وتیرہ اختیار کئے ہوئے ہیں، وہ  دراصل جوڈیشل مارشل لا ہی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار عام طور سے نواز شریف یا دیگر اہم سیاست دانوں کی طرف سے عدلیہ پر اٹھنے والے اعتراض کا جواب دینے  کے لئے مقدمات کی سماعت کے دورا ن ریمارکس    کی صورت میں یاکسی تقریب میں خطاب کے ذریعے اعتراض کا جواب دینے یا اپنی پوزیشن واضح کرنے اور یہ یقین دلانے میں  جلدی کرتے رہے ہیں کہ وہ اور سپریم  کورٹ آئین کی پابند ہے اور وہ  آئین کی حفاظت کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ اس حوالے سے ان کا تازہ ترین یہ بیان سامنے آیا تھا کہ جوڈیشل مارشل لا کی باتیں بے بنیاد ہیں کیوں کہ ملک کے آئین میں  اس کی کوئی کوئی گنجائش نہیں۔  انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اگر ملک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہؤا تو سپریم کورٹ کے تمام سترہ جج اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کی اس بات سے جمہوریت کے تسلسل پر یقین میں اضافہ ہونے کی بجائے یہ سوال زیادہ شدت سے سامنے آیا ہے کہ کیا واقعی کوئی ایسی صورت حال جنم لے رہی ہے کہ چیف جسٹس جمہوریت کی حفاظت کے لئے تمام ججوں کے استعفیٰ کی بات کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ابھی نواز شریف  کے اس بیان پر ہی چیف جسٹس ثاقب نثار کی کوئی وضاحت موصول نہیں ہوئی تھی کہ  ملک میں  جوڈیشل مارشل لا نافذ کیا جاچکا ہے۔ تاہم آج جیو ٹیلی ویژن کی طرف سے اپنے کارکنوں کو تنخواہوں کی ادائیگیوں کے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار نے جنگ گروپ کے مالک  میر شکیل الرحمان کے استفسار پر کہا کہ انہوں نے سو موٹو لینا بند کردیا ہے کیوں کہ اس عمل پر بہت نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ اب وہ متاثرہ لوگوں سے پٹیشن دائر کرنے کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ  وہ   شکایات پر غور کرسکیں ۔ تاہم اس موقع پر بھی انہوں نے نواز شریف کی طرف عدلیہ پر  براہ راست اور درشت ترین تنقید کا کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ ابھی اس بیان کی گونج بھی ماند نہیں پڑی تھی کہ نواز شریف نے آج احتساب عدالت  میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار  پر براہ راست الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب بیورو کو اس بات کی تحقیقات بھی کرنی چاہئیں کہ ثاقب نثار پہلے سیکرٹری قانون اور پھر ہائی کورٹ کے جج کیسے بنے تھے۔  موجودہ چیف جسٹس 1997 میں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی حکومت میں سیکرٹری قانون مقرر ہوئے تھے اور نواز شریف ہی کی سفارش پر  صدر رفیق تارڑ نے انہیں 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا تھا۔ نواز شریف نے یہ معلومات سامنے لاکر اور نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کرکے دراصل چیف جسٹس کو دفاعی پوزیشن میں لانے اور  ملک کے عدالتی نظام سے  بیزاری کا اظہار کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیوں کہ اگر اس معاملہ کی تحقیقات ہوتی ہیں اور ثاقب نثار کے بارے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں میرٹ کے بغیر  ان عہدوں پر نامزد کیا گیا تھا تو اس  کا  الزام تو خود نواز شریف  پر لگے گا کہ وہ  بطور وزیر اعظم کیوں میرٹ کا خون کرتے رہے ہیں۔

تاہم نواز شریف جس طرح نیب کے مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں اور نیب عدالت بیگم کلثوم نواز کی شدید علالت کے باوجود جس طرح نواز شریف اور مریم نواز کو مقدمہ کی سماعت  میں حاضری سے چند  دنوں کا استثنیٰ بھی دینے کے لئے تیار نہیں ہے…  اس سے عدالتی تعصب نمایاں ہوتا ہے۔ اسی لئے نواز شریف خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا لیکن انہیں بہر صورت سزا دینے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ انہیں وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کرنے  والے پانچ ججوں کو سرخروئی نصیب ہو سکے۔ یہی بات اب ملک کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ نواز شریف کو جیل بھیجا جائے گا۔ ملک میں انتخابات کے انعقاد کی طرح یہ سوال بھی مباحث  کا  موضوع  بنا ہؤا ہے کہ نواز شریف کو کب سزا دی جاتی ہے اور اس کے بعد ان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی خاص طور سے یہ بھی انتظار کیا جارہا ہے کہ کیا احتساب عدالت مریم نواز کو سزا دے  کر، ان کا سیاسی مستقبل بھی تاریک کرے گی یا صرف نواز شریف کو جیل میں بند کرنے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے گی۔

نواز شریف کے قید ہونے کے واقعہ کے ساتھ ہی ملک کے  انتخابات کا معاملہ بھی جڑا ہؤا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ آئندہ انتخابات میں کسی صورت مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ تاہم  پارٹی کے اہم لوگوں پر تمام تر دباؤ  اور مخالف سیاسی پارٹیوں کے ذریعے  مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ کے انتخاب میں توہین آمیز شکست سے دوچار کرنے کے باوجود یہ بات یقینی نہیں کہ نواز لیگ پنجاب سے قومی اسمبلی کی ایک سو سے کم نشستیں حاصل کرے گی یا پنجاب اسمبلی میں اسے  ایک چھوٹی پارٹی میں تبدیل کیا جاسکے گا۔   موجودہ حالات میں یہ بات قرین  قیاس نہیں کہ جس سیاسی ہزیمت کا سامنا پیپلز پارٹی کو 2013کے انتخابات میں ہؤا تھا، مسلم لیگ (ن) کو 2018 میں ویسی ہی شکست دی  جاسکے گی۔ ان حالات میں اگر نواز شریف کو قید ہو جاتی ہے تو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف  جو اسٹیبلشمنٹ  کے دوست کی شہرت رکھتے ہیں، اسی بیانیہ کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے جو نواز شریف اور مریم نواز نے اختیار کیا ہے۔ اس صورت میں نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ کا امکان بھی بعید از قیاس نہیں ۔ یہ   سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر  نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر اکثریت حاصل کرتی دکھائی دی تو  انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں اور عبوری حکومت کو مقررہ تین ماہ سے زیادہ مدت تک کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس بات کا اشارہ شیخ رشید بھی دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں طویل المدت ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی باتیں کافی عرصہ سے گردش کرتی رہی ہیں۔ نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ان قیاس آرائیوں کو درست ثابت کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ  ایک فعال عدلیہ اور ملک میں آئین کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہو گا۔ اس کا دوٹوک جواب تو کسی کے پاس نہیں لیکن ماضی کےتجربات سے اس کی شہادت ضرور لائی جاسکتی ہے۔ ایوب خان  سے لے کر پرویز مشرف تک  آئین مخالف اقدامات کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ہی ’جائز‘ قرار دیا تھا۔ اب بھی موجودہ منتخب حکومتوں کی مدت پوری ہونے سے چند ہفتے پہلے چیف جسٹس جس طرح ان حکومتوں کی کارکردگی پر شدید اور تسلسل سے سوال اٹھا رہے ہیں، ان سے ان شبہات کو تقویت مل رہی ہے کہ سپریم  کورٹ دراصل فوج  کے ایجنڈے کی تکمیل میں براہ راستہ    یابالواسطہ کردار ادا کررہی ہے۔  فوج امریکہ  سے براہ راست تصادم کی موجودہ صورت حال اور عالمی سطح پر پاکستان کی کمزور سفارتی پوزیشن کی وجہ سے فی الوقت خود کو براہ راست اقتدار سنبھالنے کے قابل نہیں سمجھتی۔ لیکن سپریم  کورٹ جس طرح منتخب حکومتوں کی  ’کردار کشی‘ کافریضہ سرانجام دے رہی ہے ، اس سے اسی ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے جو ماضی میں مارشل لا کو جائز قرار دینے کے لئے سامنے لایا جاتا تھا کہ سیاست دان بد عنوان ہیں اور ملک ان کے ہاتھوں میں محفوظ  نہیں۔ یہ تاثر قوی کیا جائے گا تو سیاست دانوں اور جمہوریت کے بارے میں عوام کی ہمدردیاں بھی ماند پڑنے لگیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali