اپنا بچہ، ماں صدقے


گلو کارہ میشا شفیع نے ساتھی گلوکار علی ظفر پر Sexual Harassment کا الزام لگایا ہے۔ جنسی طور پہ ہراساں کرنے کا الزام ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ علی ظفر نے اس سنگین الزام کی تردید کرنا کافی نہیں سمجھا اور میشا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کر دیا۔ علی کا کہنا ہے کہ اب سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ یہ ہے کسی بھی سنگین الزام سے نمٹنے کا مہذب اور باوقار طریقہ۔

میشا شفیع کی طرح ایک لڑکا ہے منظور پشتین، وہ بھی کچھ سنگین الزامات لگا رہا ہے جن میں ہراساں کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔ جن پر یہ الزامات لگ رہے ہیں انہیں علی ظفر کی مثال سے سیکھنا چاہیے اور منظور پشتین کو عدالت میں گھسیٹنا چاہیے تاکہ حق کا بول بالا ہو سکے۔ بلا شبہ، سنگین الزامات سے نپٹنے کایہی مناسب اور معقول طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ منظور پشتین یہ الزام ایک’ غیر سیاسی ریاستی ادارے‘، یعنی Deep State، یعنی بوٹوں والے، یعنی مرے عزیز ہم وطنو، یعنی۔ جون بھائی یاد آ گئے:

شرم، دہشت، جھجک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
’آپ، جی، وہ، مگر‘ یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں

یہاں تک کالم لکھا تھا کہ کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل نذیر احمد بٹ کا منظور پشتین کے حوالے سے بیان آ گیا۔ حیرت و سر خوشی کا جھماکا ہوا اور دل میں ’پاک فوج زندہ باد‘ کا نعرہ گونجنے لگا۔ منظور پشتین کی بھی یہی کیفیت ہو گی۔ اپنے روٹھے ہوئے چھوٹے بھائی کو منانے کے لئے آپ کی ایک خفیف سی مسکراہٹ ہی کافی ہے۔

جنرل صاحب نے کہا ہے کہ منظور پشتین بنوں چھاؤنی سکول سے پڑھا ہوا اپنا ہی بچہ ہے اور اگر ثابت ہو جائے کہ فوج نے زیادتی کی ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ منظور پشتین کے تین مطالبات کے حوالے سے جنرل صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیک پوسٹوں پر واقعی سختی کا سلوک ہوا ہے، بارودی سرنگیں دور کی جارہی ہیں، اور’لا پتہ افراد‘ کی تعداد وہ نہیں ہے جو ’اپنا بچہ‘ بتا رہا ہے۔

اس آن تو بس ایک ہی خوشی ہے کہ بات چیت کا در وازہ کھل رہا ہے، فوج اپنے ایک گلہ مند بچے کی شکایت سننا چاہتی ہے، اسے حل کرنا چاہتی ہے۔ یقیناً، یہ پاکستان کی تیرگی میں ڈوبی ہوئی تاریخ کا ایک جگنو لمحہ ہے۔ کیا یہ ایک نیا آغاز ہے؟ کیا ہم یہ امیدباندھ لیں کہ ہم پاکستانی بھی اقوام عالم میں ایک با عزت قوم کا مقام حاصل کر پائیں گے، ایک ایسی قوم جو اپنے باہمی مسائل بات چیت سے حل کرتی ہے، بندوق سے نہیں؟ اور بندوق سے مسئلے حل بھی کہاں ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ہم نے بندوق استعمال کی تھی تو کیا مسئلہ حل ہو گیا تھا؟ ہم نے بنگلہ دیش کے گھاؤ سے یہ’ سبق‘ سیکھا کہ ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں ہم نے بندوق سے مسئلہ حل کرنا چاہا۔ ہم پھر ناکام ہوئے، بلوچستان کے زخم آج بھی رس رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ہم اندرون سندھ بھی بندوق ہاتھ میں تھام کر مسئلہ حل کرنے پہنچے تھے۔ سندھیوں کی اجتماعی نفسیات میں وہ بندوق آج بھی شعلے اگلتی ہے۔ پھر وہی غلطی ہم نے قبائلی علاقوں میں دہرائی جس کا سب سے بین ثبوت آپ کا ’اپنا بچہ‘ ہے۔

منظور پشتین کی میڈیا کوریج ہونے دیں، یہ اس کا آئینی حق ہے۔ اس کے جلسوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں، یہ اس کا آئینی حق ہے۔ پاکستان کو پریشر کوکر مت بننے دیں، بھاپ نکلنے دیں، اگر بھاپ نہ نکلے تو پریشر کوکر پھٹ جاتا ہے۔ منظور پشتین را کا ایجنٹ نہیں ہے۔ مادر ملت فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی انڈین ایجنٹ نہیں تھے۔ نہ ہی نواز شریف انڈین ایجنٹ ہے۔ ستر سال بہت ہوتے ہیں۔ ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم تو نہیں کھا رکھی!

’الشمس‘ اور ’البدر‘ جیسی تنظیموں نے مشرقی پاکستان میں نفرتوں کو ہوا دی تھی۔ پاکستان زندہ باد تحریک سے بھی وہی باس آ رہی ہے۔ یہ تنظیم ایک Still Born بچہ ہے، اسے دفنا دیجئے۔ آپ کو اب اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، آپ کے پاس تو ’اپنا بچہ‘ ہے، زندہ سلامت۔

اورآج تو قوم آپ کی فراست کی قائل ہو گئی ہے۔ ایسی دور اندیش فوجی قیادت اگر ہمیں 1971 میں میسر ہوتی جو بات چیت اور افہام و تفہیم سے معاملات حل کرتی تو، بہرحال، ماضی کو چھوڑئیے، آگے چلتے ہیں، گنگناتے ہوئے، مست و رقصاں۔

ویسے، ایک تجویز ہے کہ جس جرگہ نے منظور پشتین سے مذاکرات کرنے ہیں اس میں گورنر کے پی کے ساتھ کور کمانڈر صاحب بھی شامل ہوں۔ پیچھے رہ کر کچھ نہ کیجئے، آپ اس قضئیے کے بنیادی فریق ہیں، آگے آئیے، ذمہ داری لیجیے، آپ کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے، سب جانتے ہیں کہ آپ کا ایجنڈا صرف اور صرف پاکستان ہے۔

اور اگرآپ فاٹا میں قانون کی حکم رانی قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں کوئی لاپتہ فرد نہیں ہو گا، جہاں اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں ہو گی، جہاں آزادیء اظہار پر کوئی پہرہ نہیں ہو گا، تو پھر دیکھئے گا، سارا ملک سڑکوں پر نکل آئے گا اور مطالبہ کرے گا کہ ’پاکستان کو فاٹا میں شامل کیا جائے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).