11 ستمبر 2001 کا بحران اور کینیڈا کے میزبان


کیا انسان بنیادی طور پر نیک ہیں یا بد؟
کیا وہ مہربان ہیں یا ظالم؟
کیا وہ مسیحا ہیں یا قاتل؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں عوام و خواص سب ہی غور کرتے رہتے ہیں۔ انسانی نفسیات کا طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ بھی سوچتا رہتا ہوں کہ کیا کسی بحران کے دوران انسانوں کا کردار عام حالات کی نسبت مختلف ہوجاتا ہے؟ میرا یہ موقف ہے کہ انسان بنیادی طور پر نیک ہیں انہیں نامساعد حالات بد بنا دیتے ہیں اور بعض دفعہ ان کی نیکی کسی بحران کے وقت ان کے دلوں کی گہرائیوں سے نکل کر ان کی گفتار اور کردار میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال حاضرِ خدمت ہے۔

11 ستمبر 2001 کے دن جب نیویارک میں دو عالیشان میناروں پر دو جہازوں نے حملہ کیا اور ہزاروں معصوم مرد اور عورتیں ہلاک ہو گئے اسی دن کینیڈا کے صوبے نیوفن لینڈ کے شہر GANDER میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔

گینڈر کا ہوائی اڈا بہت چھوٹا سا ہے کیونکہ اس شہر کی آبادی صرف چند ہزار ہے لیکن اس چھوٹے سے شہر کے بہت ہی چھوٹے ہوائی اڈے کو بین الاقوامی اہمیت اس لیے حاصل ہے کیونکہ یورپ سے شمالی امریکہ آنے والے جہازوں کے لیے بحران کی حالت میں وہ پہلا پڑاؤ بن سکتا ہے کیونکہ وہ شمالی امریکہ کا مشرقی ترین ہوائی اڈا ہے۔

11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد جب امریکہ میں داخل ہونے والے ہوائی جہازوں پر پابندی عائد کی گئی کیونکہ ان میں سے کسی بھی ہوائی جہاز میں کوئی بھی مسافر شدت پسند دہشت گرد ہو سکتا تھا تو گینڈر کے ہوائی اڈے پر ایک دن میں 37 جہاز اترے جن میں 6700 مسافر تھے۔

اس دن گینڈر کے شہریوں نے میزبانی کی کرامات دکھائیں۔ شہر کے MAYOR CLAUDE ELLIOTT نے اعلان کیا کہ رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر ہم سب مسافروں اور سب مہمانوں کے لیے اپنے دلوں اپنے گھروں، اپنے گرجوں اور اپنے سکولوں کے دروازے کھول دیں گے اور ان کا مسکراتے ہوئے استقبال کریں گے۔

سب سے پہلے شہر میں ہوٹلوں کے 500 کمروں میں ہوائی جہازوں کے عملے کو رکھا گیا۔
لوگ مہمانوں کو اپنے گھر لے گئے
سکولوں اور گرجوں میں مسافروں کے لیے سینکڑوں بستر بچھا دیے گئے
گروسری سٹورز نے سبزیاں پھل اور کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی

مریضوں کے لیے ڈاکٹروں اور فارمسسٹوں نے مختلف ممالک میں فون کر کے نسخے منگوائے اور مریضوں کا علاج کیا۔
دو دنوں میں اس شہر کی آبادی عارضی طور پر دگنی ہو گئی۔
وہ مسافر اس شہر میں اس وقت تک رہے جب تک ان کا گھر جانے کا محفوظ اہتمام نہیں ہو گیا۔

جاتےجاتے مسافروں نے گینڈر کے شہریوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک وظیفے کا اہتمام کیا تا کہ اس شہر کا اگر کوئی طالب علم امریکہ جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے ممکن ہو سکے۔

اب اس تاریخی واقعہ پر ایک BROADWAY PLAY COME FROM AWAY بنا ہے جس نے کئی ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔

جب وہ پلے کینیڈا آیا تو اتنا مقبول ہوا کہ لوگوں نے دو سو، تین سو، چار سو اور پانچ سو ڈالر کے ٹکٹ خریدے۔ میرے کئی مریض اس لیے وہ پلے نہ دیکھ سکے کیونکہ وہ SOLD OUT تھا۔

گینڈر کے شہریوں کی اس عظیم میزبانی کا واقعہ کینیڈا کی تاریخ میں سنہرے الفاط سے لکھا جائے گا۔ میری یہ خوش قسمتی کہ میں نے نیوفن لینڈ میں طالب علمی کے چار سال کے قیام کے دوران ایک رات گینڈر میں گزاری تھی۔

مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی تھی کہ اس شہر میں آج بھی لوگ دوسروں پر اتنا اعتماد کرتے ہیں کہ گھروں کے دروازے مقفل نہیں کرتے اور ایک دوسرے سے my dear، my love کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ میں نیوفن لینڈ کے شہریوں کی خوش مزاجی اور خوش اخلاقی سے اتنا متاثر ہوا کہ اب میرے کلینک کی سیکرٹری ڈیانا اور نرس بیٹ ڈیوس دونوں کا تعلق نیوفن لینڈ سے ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نیوفن لینڈ کے شہریوں میں خودکشی کی شرح ساری دنیا کے ممالک میں سب سے کم ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail