ہراسمنٹ اور ہمارا معاشرہ


ہراسمنٹ ہمارے معاشرے کے لئے ایک نئی اصطلاح ہے۔ ہضم ہونا تو در کنار ابھی تک تو یہ ہمارے حلق سے ہی نیچے نہی اتر رہی۔ ایسا ہونے کی وجوہات بھی ہیں۔ ایک ایسا سماج جہاں کے چالیس فیصد باشندے علم کی ابجد سے ہی ناواقف ہوں تو بھلا وہاں کسے پڑی ہے وہ ایسے پیچیدہ جھنجھٹوں میں پڑے۔ ایک وہ ڈومیسٹک وائیولینس ایکٹ بنا تھا کہ گھر گھر میں طلاقیں عام ہوگئیں۔ اب کوئی قانون سازوں کو بتائے کہ رخصتی کے وقت جب ماں باپ ہی تلقین کریں کہ دھی رانی بھوک پیاس سے مرجانا شوہر کے آگے نہ بولنا تو کہاں سے آئے گا شعور۔ جہاں بیٹے کی غلطی کا مداوا بیٹی کو ونی کرکے کیا جائے تو کیسی ہراسمنٹ اور کہاں کی ہراسمنٹ۔ غیرت کا اجتماعی طور پر جنازہ تو اسی وقت نکل گیا تھا جب پنچایت نے ایک بیٹی کو سر عام رسوا کیا تھا۔ اب کوئی فقرے بازی کو لے کر ہراسمنٹ کا شوشا چھوڑے تو اسے اس کی کم علمی کہا جائے گا یا کم عقلی۔ انصاف بہر حال یہاں تو ملنا نہی۔ ہاں مذید جگ ہنسائی کروانی ہو تو شوق سے کروائیے۔

ایک المیہ اور بھی ہے ترقی پذیر ممالک کا۔ مغرب کے پریشر کو لے کر یا مقامی فلسفیوں سے متاثر ہو کے جلد بازی میں قوانین بنادیے جاتے ہیں لیکن کوئی ایسا میکانزم نہی تشکیل دیا جاتا جو ان قوانین کو عمل پذیر بنا سکے۔ بےشمار جھول ان میں رہ جاتے ہیں۔ نہ تو صحیح طرح سے جرم کی تعریف کی جاتی اور نہ ہی اس کی پراسیکیوشن کا طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے۔ ہمیشہ کمزور فریق، خواہ وہ مدعی ہو یا ملزم، کو ہی ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے۔ پھر ایسے قوانین کا غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس سے وہ گڈریے والی کہانی بھی یاد آگئی کہ دو چار بار جب کوئی جھوٹ موٹ کا شیر آیا شیر آیا پکارلے تو پھر حقیقت بھی قابل اعتبار نہی رہتی۔

اب پچھلے دنوں کی بات ہی لے لیتے ہیں جب محترمہ شرمین عبید چنائے صاحبہ نے کھلے عام ایک ڈاکٹر پر ہراسمنٹ کا الزام لگا کے للکارا تھا کہ اس نے غلط لوگوں سے پنگا لیا ہے۔ جب ہراسمنٹ کے تصور کے پرچارک ہی اس کا غلط استعمال کریں تو بندہ کس کی بات کا اعتماد کرے۔ علی ظفر اور میشا شفیع کا کیس بھی نیا نیا ہے۔ علی ظفر کی حمایت کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ کوئی دودھ کا دھلا نہی ہے بلکہ اسی فیشن انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہے جہاں آئے روز ہوش ربا افیئرز کا چرچا رہتا ہے۔ میشا بھی اسی کا حصہ ہے۔ اس دنیا میں بعض حرکات جو اس سے باہرمعیوب سمجھی جاتی ہیں معمول کا حصہ ہیں۔ ہو سکتا ہے علی ظفر نے ویسی حرکات تواتر سے کی ہوں اور میشا کو لگا کہ وہ دانستہ ایسا کر رہا ہے۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علی ظفر نے واقعی جان بوجھ کے ایسی حرکات کی ہوں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا تعین کون کریگا کہ کس کی غلطی ہے۔ عام قاعدے کے مطابق تو کوئی مرد کسی عورت کا ہاتھ پکڑلے تو ہراسمنٹ کے ذمرے میں آتا ہے۔ لیکن شوبز میں ملتے وقت ہگ کرنا معمول ہے۔ تو عام قوانین ان لوگوں پہ لاگو نہی ہوتے۔ اس کا ایک دوسرا طریقہ ہوسکتا ہے۔ مویشیوں کے بیوپار میں غلط بیانی پر کئی گنا جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اس کا فیصلہ بھی چند نامور بیوپاری ہی کرتے ہیں کہ آیا غلط بیانی ہوئی کہ نہی۔ یہ عام قاعدے سے ہٹ کر ایک نظام ہے۔ اسی طرح شوبز کا بھی کوئی الگ سے ٹربیونل ہونا چاہیے جو ایسے معاملات کو وہاں کے کلچر کے مطابق دیکھے۔ پورے معاشرے کو خراب نہ کیا جائے۔ عام لوگوں کے اپنے بڑے مسائل ہیں خوامخواہ گلیمر کی دنیا کے لوگوں میں ان کو نہ الجھایا جائے۔

اسی طرح ورک پلیس ہراسمنٹ کے معاملات کے حل کے لئے متعلقہ ادارے کا ٹریبیونل ہونا چاہیے جو وہاں کی ورکنگ کنڈیشنز سے آگاہ ہو۔ وگرنہ معاملات بہتری کی بجائے مذید الجھتے جائیں گے۔ نتیجہ وہی نکلے گا جو ڈومیسٹک وائیلنس ایکٹ کا نکلا۔ ایک اچھا اقدام برائی کی نذر ہوجائے گا۔ مقامی فلسفیوں سے بھی گذارش ہے کہ وہ تمام کیسز کو ایک ہی کسوٹی پہ نہ پرکھیں۔ کیس ٹو کیس معاملات کی نوعیت کو دیکھیں اور اس کے لئے تجاویز پیش کریں تاکہ ایسی سخت اصطلاحات نہ صرف عوام کے حلق سے نیچے اتر سکیں بلکہ وہ انہیں ہضم کرنے کے قابل بھی ہوسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).