سیاسی وراثت اور روحانی گدی نشین


یہ ایسے لوگ ہیں کہ کسی محنت اور تعلیم کے بغیر ہی ان کو اور ان کی نسلوں کو ایک شاہانہ زندگی مل جاتی ہے۔ جبکہ عام آدمی اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور کامیاب کرنے کے لئے جائیدادیں بیچ دیتےہیں تب جاکر ایک نسل کی زندگی کو تعلیم کے زیور سے اراستہ کر پاتے ہیں۔ دوسری طرف ان گدی نشینوں اور سیاستدانوں کی اولادوں پر اور ان کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ پیدائشی شہزادے ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی انسان جسے محنت کے بغیر سب کچھ مل جائے میرے خیال میں وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی کے بارے نہیں سوچ سکتا اس لئے تو مغل خاندان نے جب اپنا حق سمجھ کر حکومت شروع کی تو تباہ ہو گئے۔

اپنا واسطہ ان دونوں طبقو ں سے پڑا ہے۔ جیسا کہ اپ جانتے ہیں ایک پینسٹھ سال کے تجربہ کار بندے کا لیڈر ایک بچہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس لئے تو ہماری اسمبلیوں میں نودولتیے جی حضور کہنے والے اور غلام ہی جا سکتے ہیں۔ اور نوجوان تعلیم کے بعد بھی ریڑھی لگا رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ملازمت کے لئے رشوت اور سفارش نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے تجربہ کار سیاستدان لیڈر نہیں بن سکتے کیونکہ ان کی جماعت میں لیڈر صرف لیڈر کی بیٹی بیٹا یا داماد ہی بن سکتا ہے خواہ وہ عمر اور تجربے میں بچے ہی کیوں نا ہوں مگر بڑے بڑے نام اس کو لیڈر ماننے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے خاندانی اور تعلیم یافتہ لوگ بھی ہاتھ باندھ کر اس وراثتی لیڈروں کے سامنے گردن جھکا کر کھڑے رہتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی مجبوری کیا ہے جو یہ لوگ ایسی ذلت آمیز صورت میں بھی اف تک نہی کرتے۔ ایسے تمام لوگ صرف پیسے اور اقتدار کے لئے ان لیڈروں کی غلامی کرتے ہیں دوسرا ان لوگوں نے اپنی تمام سیاست کسی کی انگلی پکڑ کر کی ہوتی ہے اور پھر ان کو گرنے سے ڈر لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی اپنے لیڈر کے سامنے کوئی حق کی بات کردے یا لیڈر کو شک بھی پڑ جائے کہ فلاں بندہ پر پرزے نکالنے کی کوشش کررہا ہے تو اسے دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے اور مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے اسے تباہ کردیا جاتا ہے۔ اور پھر ایسے لوگوں کو چلے ہوئے کارتوس کہا جاتا ہے۔

اس جاگیر دارانہ اور سیاسی نظام میں گھر کے بڑے بیٹے کو سربراہ بنا کے دوسروں پہ تھونپ دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ اس قابل ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح پیر بھی کسی سے کم نہیں ہوتے۔ دین کے نام پہ لوگوں کو اپنے تابع کرتے ہیں۔ ویسے پاکستان کے علاوہ دوسرے مسلمان ملکوں میں یہ حال نہیں ہے جو پیری مریدی والا نظام پاکستان میں ہے۔ ہمارے محلے کی ایک خالہ ہیں۔ ان کو تو زکام بھی ہو جائے تو کہتی ہیں کہ پیر صاحب کے پاس جانا ہے اور پھر بہت دنوں تک بچوں کو اچھا کھانا نہیں دیتی کہ یہ پیسے پیر کو دوں گی تب دم اچھا کرے گا۔ ہم نے سمجھایا خالہ ان پیسوں کا جوشاندہ ہی پی لو تو ٹھیک ہو جاؤ گی لیکن وہ تو ایسے حیران ہوئیں جیسے پیر کی شان میں ایسی گستاخی کر دی ہے جس کی سزا ہمیں موت کی شکل میں ملے گی۔

خیر پیسے جمع ہو گئے خالہ نے جانے کی تیاری کی تو ہمارا بھی ساتھ جانے کو دل کیا کہ دیکھ آتے ہیں ان پیر کو بھی، یہ بات خالہ کو بتائی وہ تو اور پیر پر اِیمان لے آئیں کہ دیکھا ان کی کرامت اور نظر کرم کی وجہ سے اس گستاخ کی بھی کایا پلٹ گئی اور مجھے ہدایت مل گئی۔ خیر صبح اٹھے، وضو کیا، نماز پڑھی اور خالہ کے ساتھ بس پہ بیٹھ گئے۔ کوئی ایک گھنٹہ لگا پیر صاحب کا دربار آ گیا۔ بہت سے لوگ تھے جو نجانے کب سے پیر کے انتظار میں بیٹھے تھے، ہم بھی بیٹھ گئے۔ کافی دیر کے بعد خلیفہ آیا اور آکے کہتا پیر صاحب کچھ بیمار تھے اور ڈاکٹر کے پاس گئے ہوئے ہیں آنے میں دیر لگ سکتی ہے۔ تو ہمیں خالہ کی عقل پہ ماتم کرنے کو دل کیا کہ وہ خود تو ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن آپ کو تعویزوں سے کیسے ٹھیک کریں گے۔

خیر اللہ اللہ کرکے پیر صاحب تشریف لے آئے۔ صوفے پر بیٹھ گئے اگے ٹیبل پہ ایک کپڑا رکھ دیاجاتا ہے۔ اور سب لوگ اس پہ پیسے ڈالتے جاتے ہیں اور پیر صاحب غور سے دیکھتے کہ کون کتنے ڈالتا ہے۔ جس کے زیادہ ہوتے اس کو دوسروں سے زیادہ اہمیت ملتی ہے اور پیر صاحب ان سے تھوڑا گھر کا حال احوال بھی پوچھتے۔ خالہ بھی سبحان اللہ کرکے کہتی ہیں دیکھا یہ پیر صاحب کے پیارے مرید ہیں۔ خالہ کی سادگی دیکھ کر میں نے کہا جی بالکل نظر آرھا ہے کہ کیوں پیارے ہیں۔ خیر خالہ کی باری آئی تین ہزار نذرانہ رکھ دیا پیر کے آگے جو بچوں کا پیٹ کاٹ کر کب سے جوڑ رہی تھی، بچوں کو تو قلفی بھی ان دنوں نہیں لے کر دیتی تھی۔ خیر یہ منظر دیکھ کر ایک پل کے لئے ہم نے بھی سوچا کہ کاش اس پیر کی جگہ ہم ہوتے۔

خیر آگے تعویذ پڑے تھے پہلے کے لکھے ہو ئے تو ان میں سے ایک اٹھا کے خالہ کو دے دیا گیا۔ ہم نے کھولنے کی کوشش کی کہ دیکھیں کیا لکھا گیا ہے تو خالہ نے چھین لیا کہ کھل جائے گا تو اثر نہیں ہوگا۔ اب آتے ہیں موروثی سیاست کی طرف جناب اسے بھی قریب سے دیکھا۔ تایا ابو گاؤں میں ہوتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ گاؤں کی سیاست امریکہ کی سیاست کی طرح ہوتی ہے۔ اور جو بھی اِیم این اے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ان کو ہی ٹکٹ ملتا ہے۔ ایک ہمارے حلقہ کی بی بی نااہل ہوئیں تو پہلے شوہر کی اولاد جس کے باپ کا اور حلقہ تھا اسے ہمارے حلقے میں لا کر ایم این اے بنا دیا گیا۔ تایا ابو کو زمینوں سے کچھ آمدن آتی ہے۔ جو ان سیاست دانوں کے جلسے جلوسوں میں چلی جاتی ہے۔ بعد میں گھر کیسے چلتا ہے۔ یہ تائی جان کو ہی پتا ہوتا ہے۔

خیر الیکشن کا موسم تھا ہم بھی گاؤں گئے ہوئے تھے۔ ایم این اے کا جلسہ کرانا تھا۔ اتنے پیسے تھے کہ ایک غریب کی بچی کے ہاتھ پیلے کیے جا سکتے تھے۔ خیر بہت سے کارڈذ چھپوائے جیسے شادیوں پر چھپتے ہیں۔ لوگوں کو دعوت دی گئی تایا سونے کا تاج تو افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ اس امیدوار کے لئے کچھ کپڑے خریدے گئے جو اس کو دینے تھے۔ جلسے کا دن اگیا طرح طرح کی مٹھائی اور بہت سے اقسام کے کھانے تیار کیے گئے اور ماحول کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے تایا جی کے بیٹے کی شادی ہو۔ خیر سے لوگ بھی آگئے لمبی لمبی تقریریں شروع ہوگئیں اور بلندوبانگ دعوے اور وعدے کیے گئے جیسے سیاسی لوگ پچھلے تیس برسوں سے کرتے آ رھے ہیں۔ والد صاحب کہتے ہیں یہ ووٹ والے اور نوٹ والے کسی کے نہیں ہوتے۔

فوٹو بنائے کھانا کھایا اور ایم این اے کے امیدوار چلے گئے۔ تایا جی کو کامیاب جلسے کی مبارک باد گاؤں کے لوگوں نے ایسے دی جیسے تایا جی کے بیٹے نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہو۔ یہ تو تھا جلسہ اس کے بعد تایا ابو گھر گھر گئے اور جاکر ووٹ مانگتے رہے۔ اپنے گھر کے معاملات میں تایا ابو نے مجال ہے جو کبھی بچوں سے اتنا بھی پوچھا ہو کہ تمہاری تعلیم کیسی جارہی ہے۔ رات دن ایک کردیا دس لوگ آرہے ہیں اور دس جا رہے ہیں سارا دن لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ آخر الیکشن والا دن اگیا جن جن لوگوں نے وعدہ کیا تھا کہ ووٹ تایا ابو کے کہنے پہ دینے ہیں ان کے لئے کھانا تیار کیا گیا۔ ہر پولنگ بوتھ پہ تایا ابو جاتے اور پیار سے لوگوں سے بات کرتے۔ جن کو پہلے کبھی بلاتے بھی نہی تھے آج دوست بن کے گلے لگا رہے تھے، کیا منظر تھا۔

خیر پولنگ ہو گئی اور نتیجہ نکلا تو ایسا لگتا تھا کہ تایا ابو خود یہ سیٹ جیت گئے ہوں۔ پرائی شادی میں عبدلللہ دیوانہ والا محاورہ اس دن سمجھ میں آیا۔ اگلی صبح ایم ان اے کو مبارک باد دینے گئے۔ اس کے بعد میں کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ایم این اے پانچ برسوں میں گاؤں آیا ہو یا تایا ابو کا کوئی قریبی عزیز فوت ہوا ہو اور وہ ایم این اے افسوس کے لئے بھی آیا ہو۔ مگر کیا کریں ایسے لوگوں کو ہم خود اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی تو نہیں کہتے کہ ہم یہ سب کریں۔ لیکن جو بھی ہو ایسے موروثی سیاستدانوں اور گدی نشینوں کو دیکھ کے منٹو یاد آجاتاہے کہ ہمیں زندگی جانوروں والی دی ہے اور حساب انسانوں والا لو گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).