کاسٹنگ کاؤچ، پارلیمان بھی محفوظ نہیں: سابق رکن پارلیمان رینوکا چوہدری


سابق رکن پارلیمان اور کانگریس پارٹی کی لیڈر رینوکا چوہدری کا کہنا ہے کہ عورتوں کا جنسی استحصال صرف فلم انڈسٹری تک ہی محدود نہیں ہے اور ’چاہے پارلیمان ہو یا کوئی اور جگہ‘ یہ مسئلہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔

رینوکا چوہدری بالی وڈ کی مشہور کوریوگرافر سروج خان کے اس بیان پر اپنی رائے ظاہر کر رہی تھیں کہ ’کاسٹنگ کاؤچ‘ صرف فلم انڈسٹری کا ہی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی نئی بات ہے۔ ’ایسا ہمشیہ سے ہوتا آیا ہے اور مردوں کی حوس کا شکار بننا یا نہ بننا خود عورتوں کے ہاتھوں میں بھی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر تمہارے اندر ہنر ہے تو تم خود کو کیوں بیچو گی۔‘

بالی وڈ میں نئے فنکاروں کا جنسی استحصال ہوتا ہے یہ الزام تو نیا نہیں ہے، چند روز قبل ہی جنوبی ہندوستان کی ایک اداکارہ سری ریڈی نے اس جانب توجہ دلانے کے لیے برہنہ احتجاج کیا تھا۔ لیکن ہالی وڈ کے برعکس بالی وڈ میں ہیش ٹیگ می ٹو کی گونج سنائی نہیں دی جس کے تحت ہالی وڈ کی کئی مشہور اداکاراؤں نے کھل کر یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کا جنسی استحصال کیا گیا تھا۔

رینوکا چوہدری نے کہا کہ ’یہ ہی تلخ سچائی ہے، پوری فلم انڈسٹری میرے خلاف کھڑی ہو سکتی ہے لیکن یہ صرف فلم انڈسٹری کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ عورتیں جہاں بھی کام کرتی ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ تو یہ مت سمجھیئے کہ پارلیمان محفوظ ہے یا کوئی دوسری جگہ محفوظ ہے۔ اگر آپ مغربی دنیا کو دیکھیں تو وہاں اداکاراؤں کو یہ اعتراف کرنے میں اتنا وقت لگا۔ انھوں نے اب کہا ہے کہ ہاں ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا اور اب وقت آگیا ہے کہ انڈیا بھی کہے: می ٹو‘

خیال رہے کہ سروج خان نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’یہ چلتا رہا ہے بابا آدم کے زمانے سے۔ ہر لڑکی کے اوپر کوئی نہ کوئی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تم فلم انڈسٹری کے پیچھے کیوں پڑے ہو، وہ کم سے کم روٹی تو دیتی ہے، ریپ کر کے چھوڑ تو نہیں دیتی۔‘

سروج خان

ان کے بیان سے یہ مطلب نکالا گیا کہ وہ ایک طرح سے کاسٹنگ کاؤچ کا دفاع کر رہی ہیں اور تنقید کے بعد انھوں نے معافی مانگ لی ہے۔

لیکن رینوکا چوہدری کے بیان سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کیونکہ وہ خود رکن پارلیمان رہ چکی ہیں۔

انڈیا میں میڈیا عام طور پر سیاسی رہنماؤں کی نجی زندگیوں سے الگ ہی رہتا ہے۔ رینوکا چوہدری کے بیان پر بات کرتے ہوئے کانگریس کی ایک لیڈر اور سابق اداکارہ نغمہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسئلہ بہت سنگین ہے اور زندگی کا کوئی بھی شعبہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سیاستدان بھی مرد ہوتے ہیں اور پارلیمان میں جاکر خدا نہیں بن جاتے۔‘

بی جے پی کی ایک ترجمان شائنی این سی نے کہا کہ یہ عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے لڑیں۔ آج کی دنیا میں عورتیں اپنی قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہیں اور اگر کہیں انہیں ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو انہیں اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ انھیں سیاست میں عورتوں کے استحصال کے کسی واقعہ کا علم نہیں ہے لیکن اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو عورتوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور ایسا کرنے والوں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔

بالی وڈ کے مشہور ہدایت کار فرہان اختر کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے یہ ایک افسوس ناک سچائی ہے لیکن حالات اس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک عورتیں آواز نہیں اٹھاتیں۔ وہ کھل کر سامنے آئیں گی، اپنے تجربات بتائیں گی تو لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوگا۔

بعد میں رینوکا چودہری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں کاسٹنگ کاؤچ کو صرف سیکس کے تناظر میں ہی نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اگر کسی عورت کی “مریادا” یا وقار چھین لیا جائے تو وہ بھی ان کے مطابق کاسٹنگ کاؤچ کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

پارلیمان میں کئی مرتبہ خاتون اراکین کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp