جوش، فراق گورکھپوری اور زبیر رضوی کا “می ٹو”


جدید اردو ادب کا شاید ہی کوئی پڑھنے والا ایسا ہو جس نے زبیر رضوی کی نظم “علی بن متقی رویا” نہ پڑھی ہو۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی آتے آتے اردو میں معیاری ادبی جرائد کی روایت دم توڑ رہی تھی۔ ایسے میں کراچی سے اجمل کمال نے سہ ماہی “آج” کا اجرا کیا اور دہلی سے زبیر رضوی نے سہ ماہی “ذہن جدید” کی اشاعت شروع کی۔ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب میں جدید طرز احساس نے ان دو جریدوں کی روشنی میں اکیسویں صدی کا دروازہ کھولا۔

زبیر رضوی نے 1935ء میں امروہہ کے ایک علمی گھرانے میں جنم لیا۔ عشروں تک آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے۔ اردو نظم اور غزل میں منفرد مقام رکھنے والے زبیر رضوی کی خود نوشت سوانح “گردش پا” کی نثر کا اپنا ایک ذائقہ ہے۔ زبان کی سلاست اور بیان کا کھرا پن۔ ذیل میں “گردش پا” کا جو اقتباس دیا جا رہا ہے، اس کا آخری جملہ ہے، “اس واقعے کے سارے عینی گواہ بجز راوی، سب اللہ کو پیارے ہو گئے…”

اس واقعے کا راوی بھی 20 فروری 2016 کو دنیا سے رخصت ہو گیا۔

٭٭٭     ٭٭٭٭

…موسم بدل گیا تھا۔ اب میری آواز کا سریلا پن ثقافتی اور سیاسی جلسوں میں دوسروں کی لکھی نظمیں اور ترانے سنانے میں صرف ہونے لگا تھا۔ اس موڑپر میرے چھٹپن نے اب کے جو خواب بنا، وہ گلوکار بننے کا تھا۔ اس زمانے میں تانگے کے ذریعے شہر بھر میں جلسے جلوس کے انعقاد کا اعلان ہوتا تھا۔ میرے خاندان کے کانگریسی اور احراری بزرگ مجھے تانگے میں بٹھا لیتے۔ تانگہ جگہ جگہ رکتا اور میں لہک لہک کر کسی کی نظم کا کوئی بند یا قطعہ گا کر سناتا۔ لوگ اعلان سننے سے زیادہ میری آواز سنتے۔ میں سب کی نظر میں آ گیا تھا۔

چھوٹی سی عمر میں بستی کی ادبی نشستوں میں ابتدائی جگہ پانے والا میں، ایک استاد شاعر کوثر کا نور نظر بن گیا۔ وہ ایک روز میری ماں سے ہزاراقرار نامے کر کے رام پور کے ایک بڑے مشاعرے میں لے گئے جس میں جوش، جگر اور فراق بھی شریک تھے۔ اس موقعے پر والی رام پور کے دربار میں منعقد ایک ادبی نشست بھی استاد کے طفیل دیکھی اور احمد جان خاں کے گھر دو راتوں جاری رہنے والے مشاعرے میں “اے پروڈیگل چائلڈ” کے روپ میں غزل سنائی۔ اس بار میں تین بڑے شاعروں کی نظر میں آ گیا تھا۔

جوش ملیح آبادی مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے

میں کسی ریسٹ ہاؤس کے لاؤنج میں استاد کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اتنے میں استاد کسی کام سے اِدھر ادھر ہو گئے اور مجھے جگہ نہ چھوڑنے کی ہدایت کر گئے۔ اسی بیچ بے حد شائستہ سے ایک صاحب بہلا کے مجھے ایک کمرے میں لے گئے۔ دیکھا تو جوش طلوع ہو رہے تھے۔ مجھے ان کے مقابل بٹھا دیا گیا اور جو لفظ میرے کانوں میں پڑے، وہ اس طرح تھے، “صاحب زادے، خدا نے تمھیں آواز دی ہے، جوش صاحب تمھیں کلام دیں گے۔ جب تم اس کمرے سے نکلو گے تو یہ تمھیں ہندوستان کا بڑا شاعر بنا چکے ہوں گے۔” اب وہ صاحب باہر تھے اور دروازہ بند تھا۔ میں جوش کی بانہوں کے حصار میں تھا۔ میں رو رہا تھا اور رہائی کی منت کر رہا تھا۔ اتنے میں زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آواز آئی۔ جوش سنجیدہ ہو گئے اور بولے، “جاؤ، چلے جاؤ، بڑے بد بخت ہو۔”

واقف مراد آبادی اور استاد کوثر نے میرے آنسو پونچھے۔ میں پھر لاؤنج میں پرسکون مگر کسی قدر ڈرا ہوا بیٹھا تھا۔ اتنے میں محشررام پوری آئے اور استاد کوثر کو کسی کام سے لے گئے۔ واقف مرادآبادی دراصل امروہہ کے تھے، میرے خاندان سے اچھی طرح واقف تھے، مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ نہ جانے کس لمحے، وہ بھی اپنی کرسی پر نہیں تھے۔ ایک خوب صورت سا لڑکا، مجھ سے عمر میں کسی قدر بڑا، میرے پاس آیا۔ “مجھے راہی معصوم رضا کہتے ہیں۔ میں بھی شعر کہتا ہوں۔ ادھر اس کمرے میں فراق قبلہ ٹھہرے ہیں، چلیے ان سے ملتے ہیں۔” میں فراق کو مشاعرے میں سن چکا تھا اور ان کی شخصیت مجھے جوش سے زیادہ پر کشش لگی تھی۔ جگر اس مشاعرے کے کامیاب ترین شاعر تھے لیکن مشاعرے کے بعد میں نے انھیں اِدھر ادھر آس پاس نہیں دیکھا۔

فراق گورکھپوری

ہم دونوں نے آہستہ سے فراق کا کمرہ کھولا۔ سلیقے سے جھک کر آداب کیا۔ فراق بھی جام بکف تھے۔ ہم دونوں کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اپنی جگہ سے اٹھے اور ہمیں اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خالی جام بھرا اور ہم دونوں کے “سراپے ” پر للچائی نظر ڈالی۔ سگریٹ کا ڈھیر سا دھواں منھ سے نکالا۔ پھر کچھ گنگنانے لگے۔ ہمارا اتا پتا پوچھا، بولے “تم دونوں خوب صورت ہو، ہم تمھیں شاعری کرنا سکھائیں گے۔” فراق کھڑے ہوئے اور دروازے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ ہی رہے تھے کہ استاد اور محشررام پوری داخل ہوئے۔ فراق نے دونوں کو اپنی خلوت میں مخل ہونے پر ٹوکا تو محشر نے میری طرف انگلی اٹھائی۔ “فراق صاحب، یہ میرا بھتیجا ہے۔ ” اور یہ کہہ کر ہم دونوں کو باہر گھسیٹ لائے۔ اسی بیچ واقف مرادآبادی لاؤنج میں لوٹ آئے تھے، استاد پر جھلائے۔ “ارے ان آفتی لونڈوں کو یہاں سے دفع کرو ورنہ ان کی…۔ “

اس واقعے کے برسوں بعد جوش کے ساتھ کم مگر فراق کے ساتھ بے شمار مشاعرے پڑھے۔ ایک دن میں نے فراق کو اس واقعے کی یاد دلائی تو میری طرف غور سے دیکھا، بولے، “کچھ یاد نہیں کہ ایسے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں۔ ویسے تعجب ہے تم بچ کیسے گئے؟” واقف مراد آبادی یہ واقعہ یاد دلا کر کبھی مجھ سے پوچھتے، “زبیر! اگر اس روز وہ دونوں دروازے نہ پیٹے جاتے تو کیا ہوتا؟” میں جواب دیتا، “اردو کا بڑا شاعر بن جاتا۔ ” اس واقعے کے سارے عینی گواہ بجز راوی، سب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ …


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).