شیر دریا کے قریب ہے


انسانوں کا جدید زندگی اپنانے اور سوچ بچار کا حامل جاندار بننے کا ارتقائی عمل کم و بیش دو لاکھ سال پر محیط ہے۔ اس دوران 70,000 سے لے کر 32,000 سال قبل کے ہزاری سال(millennia) بہت اہمیت کے حامل تھے۔ یہ وہ عرصہ تھا جب انسانوں نے زبان اور ابلاغ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ دیگر تمام جانداروں سے ممتاز حیثیت اختیار کرگئے۔

حیوانات کی دنیا میں ہماری برتری کی وضاحت یوول نوح حریری(Yuval Noah Harari) نے اپنی شاندار کتاب ’’Sapiens: a Brief History of Humankind‘‘ میں کی ہے۔ مصنف کے مطابق معلومات کے ابلاغ نے زمانی اور مکانی اعتبار سے انسانوں میں آگاہی پیدا کی۔ اس آگاہی کے بل بوتے پر اُنھوں نے دیگر جانداروں پر غلبہ پالیا۔ دیگر جانداروں کا دنیا کے ساتھ تعلق او ر ابلاغ بہت محدود تھا۔ چنانچہ وہ حالات وحاد ثات کے رحم وکرم پر تھے۔ وہ اہم معلومات کے تبادلے اوران حالات کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کے قابل نہ تھے جن سے اُن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔

’’ایک بند ر چیخ کر اپنے ساتھیوں کو بتا سکتا تھا، ’ خبردار، ایک شیر ہے !‘ لیکن موجودہ انسان اپنے ساتھیوں کو بتا سکتا ہے کہ اس صبح دریا کے موڑ کے قریب ایک شیر دیکھنے میں آیا۔ وہ بیلوں کے ایک ریوڑکا تعاقب کررہا تھا۔ اُس کے بعد وہ شیر کے درست مقام کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ وہ اُس مقام تک جانے والے مختلف راستوں کے بارے میں بھی بتا سکتا ہے۔ یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد اُس کے قبیلے کے افراد سرجوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں کہ کیا اُنہیں دریا تک جانا اور شیر کو مار بھگانا چاہیے تاکہ وہ خود بیلوں کا شکار کر لیں۔ ‘‘

مصنف اسے ’’شیر دریا کے قریب ہے‘‘ کی تھیوری کا نام دیتا ہے۔ یہ تھیوری بتاتی ہے کہ جو جاندار (قبیلے، نسلیں، ریوڑ اور معاشرے) ابلاغ کرسکتے ہیں، اور وقت پر ، یا وقت سے پہلے معلومات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے حریفوں کو زیر کر سکتے ہیں، وہ طاقتور اور غالب ہیں۔ دوسری طرف جو جاہل اور لاعلم ہیں، اور معلومات کے تبادلے سے قاصر یا محروم، وہ مغلوب ہوتے اور مٹ جاتے ہیں۔ یہ تھیوری تقریر اور اظہار ِ خیال کی آزادی کی بحث کے پس ِ منظر میں برمحل ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں اظہار کے ذرائع کے حوالے سے یہ انتہائی اہم بحث ہے۔

جو حکومتیں اور رہنما معلومات کے بلاروک ٹوک بہائو کی اجازت دیتے ہیں، اُن کی تزویراتی پوزیشن بہت بہتر ہوتی ہے۔ وہ بروقت اقدامات سے خطرناک اور ناگہانی مسائل سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف جانکاری کا دکھاوا کرنے لیکن آنکھیں بند کرکے التباسات اور خودفریبی کی رومانوی دنیا میں مگن رہنے والے تباہی کو دعوت دیتے ہیں۔ وہ معاشرے جو داخلی طور پر معروضی اور قیاسی مذاکرات کی روایت رکھتے ہیں، اُن کے ہاں متحارب اور مخالف نظریات کی جنگ سے لگنے والے زخم جلد ہی بھر جاتے ہیں۔ ہم سب نے تاریخ کے اوراق میں پڑھا، اور اب تک اس حقیقت کو تسلیم بھی کیا جا چکا کہ مشرقی پاکستان کے سانحے کی وجہ محض سیاسی غلطی نہ تھی۔ یہ حکمران اشرافیہ کی ابلاغ کی ناکامی اور دبے ہوئے جذبات کو طاقت کے استعمال سے ابھرنے سے روکنے کی پالیسی تھی۔

کچھ حالیہ مثالوں پر غور کیجیے۔ نواز شریف مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں عہدے سے کسی طے شدہ منصوبے کے تحت ہٹایا گیا۔ لیکن یہی نواز شریف جب اقتدار میں تھے تو وہ گورننس سے متعلق امور اور کارکردگی دکھانے کی ضرورت سے مکمل طور پر بے نیاز تھے۔ اپنی پارٹی کے امور سے لے کر ملک کو چلانے کے کہیں زیادہ پیچیدہ اور وسیع تر معاملات سے سابق وزیر ِاعظم افسوس ناک حد تک غیر متعلق تھے۔ اُنھوں نے کبھی اپنی من پسند دنیا سے باہر قدم رکھنے کی زحمت نہ کی۔ خوش فہمی کے پھول اس دنیا کی تزئین و آرائش کرتے۔ یہ اُن کے درباریوں کی دنیا تھی۔ اُنھوں نے اقتدار کے جہاز کو آٹو پائلٹ پر چھوڑ کر اہم ترین وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے گزار دیا۔ اُنہیں خوش فہمی تھی کہ معاملات خود بخود بہتری کی طرف بڑھ جائیں گے۔ اہم تقرریوں کی بابت فیصلے غلط معلومات کا نتیجہ تھے۔ وہ ایک ایسی کابینہ کی قیادت کررہے تھے جس نے ایک کل وقتی وزیر ِ خارجہ کے نہ ہونے پر کوئی شرمندگی محسوس نہ کی۔

تمام دنیا چلا رہی تھی کہ افق پر طوفان کے آثار گہرے ہوتے جارہے ہیں لیکن اُنھوں نے فیصلہ کن اقدامات نہ اٹھائے۔ نہ گورننس کی حالت بہتر بنائی، نہ اہم قانونی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی، حالانکہ جمہوری اداروں کی پشت پناہی سے وہ خود کو قانونی تحفظ دے سکتے تھے۔ وہ حکومت کو اس لئے اچھے طریقے سے نہیں چلا پارہے تھے کیونکہ وہ اپنے ماتحتوں سے با ت کرنے کے روادار نہ تھے۔ چنانچہ جب حالات نے پلٹا کھایا تو اُ ن کے دائیں بائیں کوئی بھی نہ تھا۔ وہ اس مصیبت کے لئے تیار نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُنھوں نے سننا بند کردیا تھا۔ کان اور آنکھیں بند کرکے گھر نہیں چلتا، وہ ملک چلا رہے تھے۔

اس دلیل میں یقیناً جان ہے کہ اُن کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ اس ملک میں ہر سویلین رہنما کی قسمت اسی انجام سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی غلط نہیں کہ بہتر معلومات رکھنے اور حکومت کو زیادہ مستعدی سے چلانے والا ایک لیڈر درحقیقت لوہے کا چنا ثابت ہوتا۔ دیگر سیاسی جماعتیں یا رہنما بھی بحث و مباحثے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ بھی بروقت تجزئیے کی ضرورت سے بے نیاز رہتے ہیں۔ بطور ایک سیاسی جماعت ہوسکتا ہے کہ پی پی پی کی اہمیت بڑھ رہی ہو۔ اور پھر سندھ پر مضبوط کنٹرول ہونے کے ناتے یہ قومی سیاست میں مشکل کھیل کھیل سکتی ہے۔ لیکن پی پی پی تنظیمی طور پر شدید بحران سے دوچار ہے۔ ہر چند اس کے رہنمااس کی تردید کرتے رہتے ہیں۔

پنجاب میں پارٹی کی تباہی کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری تھا۔ اسے درجنوں بار خطرے سے خبردار کیا گیا۔ لیکن تنظیمی طور پر کمزو ر پارٹی خود کو نہ سنبھال سکی۔ چونکہ پی پی پی نے معلومات سے آنکھیں بند رکھیں اور نئے معروضات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی ضرورت سے بے نیاز رہی، ا س لئے یہ محض ماضی کا ایک سایہ بن کر رہ گئی ہے۔ آج بھی اس کے نعرے اور بیانات پہلے کی طرح بے مقصد اور حقیقت سے دور ہیں۔ اس نے اپنے سیاسی انحطاط کو تسلیم کرنے اور اس میں بہتری لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کی کلاسیکل مثال ایم کیو ایم ہے۔ اس کی تباہی کی وجہ اصلاحات لانے اور خود کو تبدیل نہ کرنے کی پالیسی تھی۔ تکبراور خود سری نے اس کے رہنمائوں کی آنکھوں پر اس طرح پٹی باندھ رکھی تھی کہ اُنہیں علم ہی نہ ہو سکا کہ بندوق اور دھمکی کی سیاست کا دور ختم ہوچکا ہے۔ فیڈبیک اور تنقید پر اس کا پسندیدہ ردِعمل بندوق کی نالی سے آتا تھا۔ کم شدت پسند ردِعمل میڈیا ہائوسز کو بند کرنا اورحقیقت پر پردہ ڈال کر اپنے بیانیے کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ سلسلہ برس ہا بر س تک جاری رہا۔ معاملہ اس حد تک بڑھ چکا تھاکہ اس کے نمائندے میڈیا مالکان کے پاس بیٹھ کر اُنہیں بتاتے کہ وہ اپنے اسٹاف میں کسے رکھیں اور کسے نکال دیں۔ خیر اب اس کے تمام دھڑے اپنی معصومیت کا ڈرامہ رچاتے ہوئے جمہوری اصولوں سے گہری وابستگی کا دعویٰ کررہے ہیں۔ کچھ دیگر منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔ بانی متحدہ اپنی بیماری اور زوال سے نمٹنے کی ناکام کوشش میں ہیں۔ وہ خود کو لاعلم رکھنے کی شعوری کوشش کا شکار ہوئے ہیں۔

اپنے دور ِعروج میں جنرل مشرف نے بہت تحقیر آمیز انداز میں وکلا کی تحریک کو نظر انداز کیا۔ وہ سمجھ نہ پائے کہ اس تحریک نے ملکی سیاست میں کن حرکیات کو جنم دیا ہے۔ آخر کار اُنہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ جنرل کیانی نے مدت ملازمت میں توسیع لے لی ، اور اُن کا باقی وقت اس فیصلے پر پچھتانے میں گزرا۔ جنرل راحیل شریف کا افسانوی امیج ملک کے در و دیوار پر اس طرح پینٹ کیا گیا تھا کہ وہ معروضی تنقید اور حقیقت پسندانہ تجزیے کو درخور اعتنا نہیں گردانتے تھے۔ لیکن  التباسات کی دھند چھٹتے ہی احساس ہوا کہ وہ بھی اسی دنیا کے باسی ہیں جہاں سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ اور اسے غروب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

کچھ دیگر محاذوں پر ’’دریا کے نزدیک شیر‘‘ والی تھیوری صادر آتی ہے۔ جب طالبان فاٹا کی ایجنسیوں پر یکے بعد دیگرے قبضہ کررہے تھے اور ریاست پسپائی اختیار کررہی تھی، تو پاکستان پر خوف اور دہشت کے سائے دراز ہوتے جا رہے تھے۔ وہاں سے آنے والی معلومات انتہائی تکلیف دہ تھیں۔ ملک کا امیج خراب ہورہا تھا۔ ریاست کی عملداری چیلنج ہو رہی تھی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ فوجی اور سویلین قیادت نے اس صورت ِحال کو سنجیدگی سے لیا۔ اس کے بعد ایک طویل اور فیصلہ کن جنگ لڑی گئی۔ آج ہم اس کے ثمرات فاٹا میں دیکھ رہے ہیں جہاں زندگی معمول پر آچکی ہے۔ جن علاقوں میں معلومات کا گلا گھونٹ دیا گیا، یا نظر انداز کردیا گیا، جیسا کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی، یا نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا ردعمل ، وہاں ریاست اور معاشرے کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

معلومات کے بہائو کو مسدود کرنے، حقیقی بحث کو آلودہ کردینے اور پریشان کن تصورات کی زبان بندی سے ممکن ہے کہ بے پناہ طاقت کا اظہارہوتا ہو۔ ممکن ہے یہ سرشاری کی کیفیت بہت لطف دیتی ہو۔ لیکن یہ تباہی کی طرف جانے والا راستہ ہے۔ معلومات کے ذرائع بند کردینے سے دریا کے قریب آئے ہوئے شیر واپس نہیں چلے جائیں گے۔ وہ کہیں زیادہ خونخوار اور خطرناک ہوجائیں گے۔ درندے اُس وقت حملہ کرتے ہیں جب شکار غافل ہو۔ جب وہ گرد وپیش کی معلومات سے بے نیاز ہو۔ دوسری طرف معلومات اور آگاہی رکھنے والے جاندار اپنا بچائو کرسکتے ہیں۔ آج بحث کو روک دیں گے، کل یہ طوفان بن کر ابھرے گی۔ اسے طوفان بننے کی اجازت دینا کسی طو ر دانائی نہیں۔ اس نادانی کا احساس دلانا کسی طور دشمنی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).