انتظار صاحب‘ آنسو اور معذرت


انتظار صاحب کی آنکھوں میں آنسو ؟ ان کے ہونٹوں پر معافی کے الفاظ؟

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ آنکھوں دیکھی کہتا ہوں نہ کانوں سُنی۔ بلکہ اس کے لیے نیا محاورہ گھڑ لینا چاہیے، آنکھوں پڑھی۔ میں نے یوں پڑھا۔ اور پھر شش و پنج میں پڑ گیا کہ کیا واقعی؟ بے یقینی کے سے عالم میں اس صفحے کو دیکھتا گیا اور یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔

اس صفحے پر آننتھ مورتی کا نام لکھا تھا اور اس نام سے میری واقفیت انتظار صاحب کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ انتظار صاحب کے تعارف سے پہلے اسی قدر معلوم تھا کہ وہ جنوبی ہندوستان کی کنّڑ زبان میں لکھتے ہیں اور معاصر عہد کے بڑے ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے ہم زبان گریش کرناڈ کے ڈرامے تغلق پر ان کا تعارفی مضمون پڑھنے کو مل گیا تھا۔ ان کا ناول سنسکار بعد میں پڑھا اور جب پڑھا تو قائل ہوگیا۔ اب ان کا نام دیکھ کر یادوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ گریش کرناڈ سے ان کا ذکر۔ ساہتیہ اکادمی کی سربراہی۔ برلن میں ملاقات، پھر انتظار صاحب کے ساتھ سینما ہال میں جا کر اس ناول پر بننے والی فلم کا خاص شو۔ ساہتیہ اکادمی کے لیے پاکستانی کہانیوں کا انتخاب۔ اس انتخاب میں انتظار صاحب کا مجھے نتّھی کر لینا۔ نئی دلّی۔ پھر مین بکر بین الاقوامی انعام کے لیے انتظار صاحب اور آننتھ مورتی کی نام زدگی۔ وہ انعام کے لیے حریف بننے کے بجائے ایک دوسرے کے دوست نظر آئے۔ انعام کی تقریب میں ملاقات۔ دو شاندار بوڑھے ادیبوں کی معانقہ کرتی ہوئی یادگار تصویر۔ غرض پورا ایک تذکرہ۔

اس موقعے پر خوب تصویریں کھنچیں۔ خوش گوار یادوں کے ساتھ تقریب تمام ہوئی۔ آننتھ مورتی نے یہ فقرہ بھی کہا کہ انعام کے مُنصفین ایشیا اور افریقہ کے ناول نگاروں کی جدوجہد اور تحریروں کے پھیلائو کو سمجھنے کے اہل نہیں۔ اس پر کوئی تنازعہ نہیں اٹھا۔ انھوں نے مجھ سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ان کے بجائے انعام کے حق دار انتظار حسین ٹہرائے جاتے تب بھی ان کو اتنی ہی خوشی ہوتی۔ انعام جس کو ملنا تھا، اسے مل گیا، ہم سب اپنے اپنے گھر کو سدھارے۔ تنازعہ اس وقت اٹھ کھڑا ہوا جب آننتھ مورتی نے ہندوستان کے الیکشن کے بارے میں رائے دی۔ بیمار وہ لندن میں بھی تھے مگر واپس گئے تو بیماری نے شدّت اختیار کر لی۔ اس کے باوجود انھوں نے نریندر مودی اور الیکشن میں بی جے پی کی (اس وقت تک) ممکنہ کامیابی کے بارے میں ایسے دو ٹوک اور سخت بیانات دیے کہ وہ ایسے ملک میں رہنا بھی پسند نہیں کریں گے۔ ان کے مخالفین نے کہا کہ ان کے لیے کراچی کے یک طرفہ ٹکٹ کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ مگر آننتھ مورتی ڈٹے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے ملک سے ملکِ عدم کا سفر اختیار کیا۔

بیماری کی شدّت کے دنوں میں انھوں نے چھوٹی سی کتاب اس طرح لکھی گویا اپنے مقصد کی تکمیل کررہے ہیں۔ Hindutva نام کی یہ کتاب میں نے پڑھی تو پہلا خیال انتظار صاحب کا آیا۔ اگر وہ یہ کتاب پڑھ لیتے تو اپنے اس دوست کے اور گرویدہ ہو جاتے۔ مگر اس کتاب کی اشاعت سے پہلے انتظار صاحب بھی رُخصت ہوچکے تھے۔

یہ خبر مل گئی تھی کہ آننتھ مورتی نے اپنی خودنوشت سوانح مکمل کر لی تھی اور اس میں انتظار صاحب کا ذکر بھی ہے۔ آننتھ مورتی کا دیہانت 2014ء میں ہوا۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ایس آر راما کرشنا نے کیا ہے جو حال ہی میں ہندوستان میں شائع ہوا ہے۔ ہندوستان سے کسی بھی کتاب کا یہاں پہنچنا اب جوکھم کا سفر بن گیا ہے۔ مگر اس دوران ایک کتاب دوست شخصیت جئے بھٹا چاریہ روز متعلقہ باب انٹرنیٹ پر لگا دیا اور یوں ہہم تک اس کی رسائی ہوگئی، اور اس باب کو پڑھ لیا۔

’’زمان و مکاں سے ماورا لمحے‘‘ نام کے اس مختصر باب میں آننتھ مورتی نے 1996ء کے دوران نیپال کی ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے جب ہندوستان، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے چند ادیب بغیر کسی ایجنڈا کے اس مقصد کے لیے جمع ہوئے تھے کہ بابری مسجد کے انہدام اور مذہب کے نام پر بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے بارے میں باتیں کریں۔ ساری کارروائی غیررسمی تھی، اس لیے باتیں بھی پورے خلوص دل کے ساتھ ہوتی نظر آتی ہیں۔ آننتھ مورتی پس منظر کی تفصیلات اور باریک جُزئیات سے صرف نظر کرکے چند فقروں میں تصویر کھینچ دیتے ہیں۔ انہی چہروں میں انتظار حسین کی تصویر بہت صاف ہے اور وہ اس روپ میں نظر آتے ہیں جس میں ان کو کم دیکھا گیا ہے۔

وہ اس حلقے میں شامل بنگلہ دیش کی ایک خاتون ادبیہ کا ذکر کرتے ہیں جو ساڑھی باندھے ہوئے ہیں، بکھرے ہوئے بال سامنے گر رہے ہیں اور وہ اپنے شوہر کی گم شدگی کا ذکر کررہی ہیں جو 1971ء میں یونیورسٹی جانے کے لیے گھر سے نکلے اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔ اپنے شوہر کی تلاش میں وہ یونیورسٹی جاتی ہیں جہاں پاکستانی فوج کے سپاہی بندوقیں تانے موجود ہیں اور لاشوں کی ڈھیر میں سے اپنے شوہر کو شناخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی آواز بھّرا جاتی ہے اور ان کے چبھتے ہوئے سوالات کا رُخ آخر میں پاکستان کے ادیبوں کی طرف ہو جاتا ہے۔

آننتھ مورتی کے برابر پاکستانی ادیب انتظار حسین بیٹھے ہوئے ہیں جو ان کے بقول اپنے دوست بھٹّو کی طرح جناح کے طرف دار تھے اور سمجھتے تھے کہ اسلام پر بغیر رکاوٹ عمل درآمد کے لیے علیحدہ ملک ضروری ہے۔ جناح کی حد تک تو بات درست ہے کہ انتظار حسین ان کے قائل تھے مگر بھٹّو کی دوستی کا حوالہ سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن اس کے بعد تصویر صاف ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں۔

’’نوکیلی ناک والے انتظار حسین نے اپنے ہاتھ گود میں رکھ لیے تھے جیسے مراقبے کی حالت میں ہوں اور ان کی بات سُن رہے تھے۔ جب بنگلہ دیشی خاتون اپنی بات کہہ چکیں تو پاکستان کی ایک نوجوان مصّنفہ بے اختیار سسکیاں بھر کر رونے لگی۔ انتظار حسین نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ ان کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں اور گالوں پر آنسو بہہ رہے تھے۔ ’’اپنے ملک کی جانب سے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں‘‘ انھوں نے انگریزی میں کہا۔ ’’میں اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ ہم نادانستگی میں آپ کے شوہر کے قتل میں شریک ہیں؟‘‘ انھوں نے تائید کی خاطر دوسرے پاکستانی ادیبوں کی طرف دیکھا۔ تین خاتون لکھنے والیوں نے سر جھکا لیے اور اپنے آنسوئوں سے ان کے الفاظ کی توثیق کر دی۔ ‘‘

’’یہ ایسا واقعہ ہے کہ میں بھول نہیں سکتا۔‘‘ آننتھ مورتی نے لکھا ہے۔ اسے پڑھ کر ہم بھی نہیں بھول سکتے۔ چند ادیبوں کی یہ ملاقات ایک پورے دور کی کیفیت کو سمیٹ لیتی ہے۔ بنگالی ادیبہ کی تکلیف دل کو چھو لیتی ہے اور نہ جانے کتنی بے کس و مجبور عورتوں کا مقدر ٹہری ہوگی، کتنے خاندانوں کی آزمائش۔ اور جیسے یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بنگلہ دیش میں نہیں، پاکستان میں۔ اور پھر انتظار حسین کا ردعمل۔ ان کا یہ رنگ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ اپنی تحریر میں بھی جذباتیت سے پرہیز کرتے تھے اور ذاتی زندگی میں بھی۔ ان کے بارے میں ایسا کوئی بیان نظر سے نہیں گزرا جب ان پر رقّت طاری ہوگئی ہو یا وہ فرطِ جذبات سے مغلوب نظر آئے ہوں۔ دو ایک مرتبہ ان کو ایسی صورت حال میں بھی دیکھنے کا مجھے بھی اتفاق ہوا ہے جب وہ قریبی عزیز کے انتقال کے صدمے سے دوچار ہوئے۔ مگر ایسے موقعوں پر بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنے کے قائل تھے۔ مگر یہاں انتظار صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3