ایک عورت سے ملاقات: بوئے گل تھی سراغ میں گل کے


ایک عجیب واقعہ آپ کی نذر کرنے جا رہی ہوں ۔ سن تو رکھا تھا کہ عورت کو سب سے زیادہ آسانی سے شکار عورت ہی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ مگر عورت خود عورت کے جسم کی شکاری ہو، یہ میری فہم کے لئے ایک انوکھی چیز تھی۔ کل رات کی بات ہے کہ میں ایک کافی شاپ پر بیٹھی کافی پی رہی تھی کہ اچانک میرے سامنے ایک حسین عورت آکر بیٹھ گئی ۔ میں نے عورت جان کر اسے اپنی میز سے اٹھ جانے کو نہیں کہا ۔ اس نے رسمی دعا سلام کے بعد گفتگو کا آغاز کیا ۔ مکالمہ من وعن پیش کرتی ہوں۔

سوال: آپ کیا کرتی ہیں ؟

جواب: میں پڑھاتی ہوں اور کچھ لکھتی لکھاتی ہوں ۔

سوال: آپ شادی شدہ ہیں ؟

جواب: جی ہاں ۔

سوال: بچے؟

جواب: میں تین پوتوں کی دادی ہوں ۔

سوال: اوہ میرے خدا ! آپ بالکل نہیں لگتیں ۔

جواب: میں 50 سال کی ہوں اور میرا بیٹا 30 برس کا ہے۔

پھر میں نے اس عورت سے پوچھا۔

سوال: اور ویسے آپ کیا کرتی ہیں؟

جواب: میں ملائیشیا میں پروفیسر ہوں ۔

سوال: اوہ اچھا یہاں کیسے آنا ہوا؟

جواب: ملتان کی ہوں میں ۔

سوال: مجھے آپ کی شکل دیکھی بھالی لگ رہی ہے آپ کس سکول میں پڑھتی تھیں؟

جواب: سینٹ میریز کانونٹ 1985ء

اوہ اچھا اسی لئے آپ مجھے دیکھی بھالی لگ رہی تھیں میں بھی اسی سکول سے 1983ء میں فارغ التحصیل ہوئی تھے۔ وقت اور عمر آگے بڑھ جانے سے پہچان میں دشواری ہوئی۔ بڑی مسرت ہو رہی ہے آپ سے مل کر۔ میرا نام صائمہ ہے اور آپ کا؟

خاتون نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ وہ مجھے جانتی تھیں اسی لئے میری میز پر آبیٹھیں تھیں ۔ باتوں باتوں میں مشترکہ سہیلیوں اور پرانے قصوں سے پتا چلاکہ وہ مجھے عرصے سے سٹاک (Stalk) کر رہی ہیں ۔ ابھی حیرت کے جھٹکے مجھے لگنا باقی تھے اُن بی بی کی ایک ہی بیٹی تھی اور وہ خود طلاق یافتہ تھیں۔ میرے بارے میں پوری خبر رکھتی تھیں کہ میرا ماضی اور حال کیا ہے۔ پھر یوں انجانوں کی طرح ملاقات کے انداز پر مجھے شدید تشویش تھی۔ اس پر ایک سوال جو ابتداء میں مجھے سادہ لگا مگر اس ایک سوال سے پوری کہانی بنتی ہے۔ سوال تھا کہ

کیا آپ اکیلی رہی ہیں ؟

نہیں میں بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہوں ۔

سوال: بیٹے کی شادی ہو چکی ہے؟

جواب: جی بتایا نا کہ میں تین بچوں کی دادی ہوں۔

سوال: آپ کو شیشہ (ماڈرن حقہ) پسند ہے نا؟

جواب: جی مگر آپ کو کیسے معلوم پڑا۔

اس کے بعد اس نے اپنا فون میری طرف بڑھایا۔ اس میں فیس بک سے لی گئی میری کئی تصاویر تھیں۔ میرے لئے یہ ایک بہت عجیب تجربہ تھا کہ کوئی عورت میرے بارے میں اتنی معلومات اکٹھا کر کے کیوں پھر رہی ہے۔ اور یہ ملاقات محض اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سکیم ۔میں نے اسی لمحے جہاں سے وہ اٹھ کر آئی تھی ادھر دیکھا چند خواتین کا گروپ محوِ گفتگو تھا۔ میری ایک تصویر پر انگریزی میں تبصرہ کرتے ہوئے اُس نے کہا۔

Look what a hot pose

میں نے بات کو قہقہے میں اُڑا دیا ۔ پھر ایک اور تصویر کے بارے میں بولیں کالا رنگ بہت جچتا ہے آپ پر۔ اب میں نے ضبط چھوڑ کر کہا کہ آپ مجھے بہت عجیب لگ رہی ہیں۔ میری تصاویر اور میرا بیک گراﺅنڈ کیوں آپ کی توجہ کا مرکز بنا۔ تو وہ بولیں مجھے رات کو اپنے گھر لے چل، پھر بتاتی ہوں۔ میں نے کہا، ایسا ممکن نہیں۔ مانا کہ ہم پرانی سکول فیلو ہیں مگر یوں بھی نہیں کہ میں آپ کو گھر لے جا سکوں البتہ ہم دوبارہ رابطہ کر سکتے ہیں۔ اور رابطے میں رہا بھی جا سکتا ہے۔

وہ بولی آپ بیٹے کی وجہ سے انکار کر رہی ہوں گی تو چلیں میرے گھر چلیں۔ میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا کہ ضرور کسی دن آﺅں گی۔ وہ بولی پھر ہم شیشہ پارٹی کریں گے اور ساتھ ہی سوال داغا شراب پیتی ہیں آپ؟ میں نے صرف نہیں کہا۔

اس لمحے مجھے لگا ایک کہانی میرا انتظار کر رہی ہے۔ اس کی طرف دھیان دو۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ بھی نہیں کیا۔

دوسری طرف سے فوری سوال آیا، بوائے فرینڈ ہے آپ کا؟ جواب نہیں

سوال کیوں؟

جواب: مجھے مردوں میں اب کوئی دلچسپی نہیں۔ میں بھرپائی ۔

سوال: تو پھر عورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟

میں نے کہا میں سمجھی نہیں کھل کر بات کرو۔

جواب: کیا آپ میرے ساتھ تنہائی میں جانا پسند کریں گی۔ یہ میرے پاس کچھ مغربی طرز کے لباس ہیں ان سے آپ کونسا پہنیں گی اور فون میری طرف بڑھا دیا۔ سرخ رنگ کے لباس دکھانے لگی جو کے جسم چھپانے کے کام آئیں نہ آئیں، دکھانے کے کام آرہے تھے ۔ میں نے کمال تحمل سے جواب دیا کوئی بھی نہیں اور کہانی کے کلائمیکس کا انتظار لئے سب مشاہدہ کرتی رہی۔ پھر اس عورت نے ایک پختہ عمر مرد کی تصویر دکھاتے ہوئے کہاکہ کیا خیال ہے۔ اگر آپ کو اس کا ساتھ بھی مل جائے تو؟ کیا آپ پھر بھی میرے قرب کی خواہش پوری نہ کریں گی (واضح رہے یہ ڈھکے چھپے الفاظ میرے ہیں اُس بی بی کے نہیں)۔

 میں نے صاف انکار میں جواب دیا اور خدا حافظ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ خاتون جیسے دیوانی ہو رہی تھیں ۔ رُکیں رُکیں میری یہ تصویر دیکھیں اچھا یہ آدمی دیکھیں بات تو سنیں میں کب سے آپ کو پسند کرتی ہوں اورآج مل گئی ہیں تو اپنا پتہ یا فون نمبر ہی دے دیں وہ تقریباً روہانسی ہو کر میرے ساتھ چل کر پارکنگ تک آگئی تھی۔ پھر ایک پرانی سہیلی کا نام لے کربولی جب سے آپ کو اُس کے ساتھ دیکھا ہے تب سے میں آپ کو فیس بک پر دیکھ رہی ہوں آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں۔ میں نے مگر اُس کی کوئی اپیل نہیں سنی اور نہ کہیں رپورٹ درج کروائی اس جنسی ہراسانی کی کیونکہ میرے پاس کیا ثبوت تھا کہ ایک عورت یعنی ایک عورت نے مجھے میری مرضی کے بغیر دیکھا بھالا چھوااور مدعا بھی بیان کر دیا۔

میں صبح اٹھتے ہی کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی یہ کتھا لکھنے۔ اس دوران اچانک خیال آیا کہ یہ خاتون عرصے سے سوشل میڈیا پر میسجنر پر مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کر رہی تھیں اور ڈسپلے پکچر میں صرف پاﺅں نظر آتے تھے سو میں مسلسل نظر انداز کر رہی تھی ۔ اور میسجز پر ڈیلیٹ کی آپشن استعمال کرتے ہوئے ان میسجز کو ڈیلیٹ بھی کر چکی تھی۔

سو اب کہا تو یہی جا سکتا ہے کہ رات گئی، بات گئی۔ اور شکر ہے کہ بات بگڑی نہیں۔ زندگی کا یہ روپ دیکھنا باقی تھا، ایک جھلک اس کی بھی دیکھ لی۔۔۔ یہ تو جان لیا کہ بوئے گل خود بھی گل کے سراغ میں نکلتی ہے۔ دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).