مرد بھی عورت کی طرح نازک نکلا    


یہ کیا ہو رہا ہے؟ میشا شفیع اور علی ظفر کا لوگ پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں؟ آخر کیوں بھائیو اور بہنو؟ ہمیں کیا مل رہا ہے، ہمیں نہیں معذرت آپ کو، کیوںکہ مجھے تو کچھ نہیں مل رہا اگر آپ کو ملے تو تھوڑا مجھے بھی دے دیں، اللہ نے دیا ہے تو بانٹ کر کھاؤ، یہ بات تو کسی کو یاد ہی نہیں رہتی، ہاں تو میں یہ کہ رہی تھی کہ علی طفر اور میشا شفیع کے لئے میں دعا ہی کرسکتی ہوں کیونکہ اس میں پیسے نہیں لگتے، آپ بھی یقینا یہی کرسکتے ہوں گے اور کچھ کو تو اس میں بھی کوئی غرض نہیں ہوگی اور ہو بھی کیوں، وہ برے ہیں یا اچھے، ہمارے لیے تو کسی طرح فائدہ مند نہیں، کر بھلا تو ہو بھلا یا نہ ہو، آپ کا کیا واسطہ ان دونوں سے؟ نا سچ کا پتا نا جھوٹ تک رسائی ، کون کیا کیوں کہ رہا ہے، ہراساں کیا، نہیں کیا، کیوں کیا، کرنا چاہا یا نہیں چاہا، کس لئے چاہا یہ ہمارے مسائل نہیں۔

ہمارے مسائل تو کہیں zیادہ سنگین نوعیت کے ہیں، مرد کو بہت طاقتور اور عقلمند سمجھنے والا معاشرہ کبھی خود بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے، مقصد یہ کہ زندگی ہر قدم پر کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ معاشرے کے ہر فرد کو اپنی حفاظت کا ذمہ خود لینا چاہیئے یہ ایک عالمگیر اصول ہے کیوں کہ کوئی آپ کی حفاظت کا ذمےدار نہیں سوائے آپ کے اور یہاں اس سے مراد احتیاط اور خود پر قابو رکھنا ہے یعنی پھونک پھونک کر قدم اٹھانا۔

حفاظت کی کئی اقسام ہیں جن میں سب سے ضروری اور اہم” پرسنل سیکیورٹی ہے” آپ کا نام ہے، کام ہے، وجود ہے، ساکھ ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مرد بھی انسان ہوتا ہے اور اسے بھی اتنے ہی خطرے لاحق ہوسکتے ہیں کہ جتنے ایک عورت کو، میں ہر خبر سے کچھ نہ کچھ سیکھنا لازم سمجھتی ہوں، یہاں سیکھنے کی بات ہو رہی ہے اپنی اپنی رائے اور جانبدارانہ رویے کی نہیں۔

شوبزنس میں تو کپڑوں اور اخلاقیات کا ویسے ہی فقدان پایا جاتا ہے (اختلافی نوٹ: ایسی تعمیمی رائے سے گریز چاہیے – مدیر) تو حفاظتی اصولوں پر عمل پیرا ہونا بھی اولین ترجیحات میں ہونا چاہیئے اور اصول تو سب کے لئے ایک جیسے ہونے چاہئیں نا کے تمھارے اور ہمارے اور، مرد کو کیا ضرورت ہے کے وہ ایک عدد ماں، بیوی اور بچوں کے باوجود ساتھی کولیگ سے بغل گیر ہو ؟ اور قربت اختیار کرے، اگر وہ واقعی ایک خاندان اور اس کے افراد کی اہمیت اور ضرورت کا حامی و ناصر ہے اور انکے حقوق کا علمبردار ہے؟ اور یہی اصول ایک عورت کے لیے بھی ہے، یہاں بات سچ اور جھوٹ کی نہیں ہورہی وہ تو عدالت ہی میں راز افشا ہوسکے گا کہ کیا،کب کس نے غلط کیا، لیکن علی ظفر کا دس کروڑ کا میشا شفیع کے لئے ہرجانے کا نوٹس بھجوانا اس بات کی دلیل ہے کہ ایک عورت نے ان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی۔ چونکہ بات سیکھنے کی ہو رہی ہے اور ہر خبر کا اثر عوام پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ہوتا ہے جس کو میڈیا کی ٹو پلیئر تھیوری بھی واضح کرتی ہے “کہ عوام خود سے کسی بات یا معلومات سے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کرتے وہ تو بس وہ سیکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں جو ان کے اوپینین لیڈرز ان کو سمجھانا چاہتے ہیں جن سے وہ متاثر ہوتے ہیں اور اہمیت دینا مقدم سمجھتے ہیں اور میڈیا سے کسی بھی طرح کا اثر بالواسطہ نہیں لیتے بلکہ جو ان کا پسندیدہ اوپینیئن لیڈر ان کو سمجھانا یا بتانا چاہتا ہے بس وہی بات وہ سنتے اور سمجھتے ہیں اور رائے قائم کرتے ہیں اوران کا اوپینیئن لیڈر کسی بھی پیشے کا ماہر ہو سکتا ہے اور اس سے متعلق معلومات رکھ سکتا ہے اور اس پر گرفت بھی یا پھر وہ کئی میدانوں میں مہارت اور قابلیت رکھنے کا اہل ہوتا ہے اور ہم اس کے خیالات سے متائثر ہو کر کوئی رائےقائم کرتے ہیں نا کہ میڈیا سے بالواسطہ اور یہی کچھ اس مرتبہ میشا شفیع اور علی ظفر کے معاملے میں ہوا، بس جس کو جو اچھا لگا حمایت کا پیغام کھلے عام کرنا شروع کردیا اور اب تک کئی بلاگز چھپ چکے ہیں ، میرا موضوع یا تحریر کا مقصد میشا شفیع یا علی ظفر کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ صرف اس بات پر روشنی ڈالنا ہے کہ مرد خود کو کتنا ہی طاقتور سمجھے لیکن مسائل سے وہ بھی دوچار ہوسکتا ہے اور کوئی عورت کبھی بھی اس پر اچانک کھڑے ہوکر الزام لگا سکتی ہے تو اسے بھی جائے پناہ حاصل نہیں اور اس کی عزت بھی عورت کی عزت سے کم نازک نہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ مرد کو بھی بے باک رویہ اپناتے ہوئے دس مرتبہ سوچنا چاہئیے چاہے تصاویر کی حد تک ہی کیوں نہ ہو اور وہی احتیاطی اصول اپنانے چاہیئیں جو وہ اپنی بہن ،بیٹی یا ماں سے اپنانے کے خواہاں ہوتے ہیں تاکہ ان پر الزام لگانے یا شور مچانے کا کسی عورت میں ہمت و حوصلہ پیدا نہ ہو اور میڈیا ان تصاویر کا استعمال کر کے لوگوں میں مزید نئے خود ساختہ سوالات اور انکشافات پیدا نہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).