اردو کا جنازہ نہیں نکلے گا


جب رئیس امروہوی نے کہا تھا کہ “اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے” تب لاڑکانہ شہر کے میرے محلے میں لسانی تفریق نام کو بھی نہیں تھی۔ سندھی اکثریت والے شہر کے میرے جاڑل شاہ محلے میں بیس سے زائد گھر اردو بولنے والوں کے تھے، چار پنجابی بولنے والوں کے اور ایک گھر پٹھان فیملی کا بھی تھا۔ دو گھر سندھی ہندو اور ایک کرسچن فیملی کا بھی تھا۔ مختلف زبانیں بولنے اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور اپنائیت کا رشتہ ہوتا تھا۔ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ عورتیں ایک دوسرے کے گھر آیا کرتی تھیں اور بچے شام کو ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ پنجابی اور پٹھان اپنے گھروں میں تو اپنی زبان بولتے تھے، لیکن اپنے پڑوسیوں سے سندھی میں بات کرتے تھے، جبکہ اردو بولنے والے سبھی سے اردو ہی میں بات کرتے تھے۔ جو دو گھر ہندو فیملیز کے تھے، ان میں ایک گھر کوشیلا بائی کا بھی تھا۔ کوشیلا بائی کا شوہر جوانی میں پرلوک پدھار گیا تھا اور ان کے تین بیٹے پریم، بلدیو اور منوہر تھے۔ منوہر میرا ہم عمر اور دوست تھا۔ تب میں لاڑکانہ کے پائلٹ ہائی اسکول میں سندھی میڈیم کی ساتویں کلاس پڑھتا تھا اور اردو اخبارات میں بچوں کی کہانیاں لکھتا تھا۔ میری کلاس کے سامنے اردو میڈیم کی کلاس میں اردو بولنے والے لڑکوں کے ساتھ میرا قریبی سندھی دوست آصف سومرو اور چند دوسرے سندھی لڑکے بھی اردو میڈیم میں پڑھتے تھے، لیکن سندھی میڈیم کی میری کلاس میں کوئی بھی اردو بولنے والا لڑکا نہیں پڑھتا تھا۔

میرے گھر کی گلی میں اردو بولنے والے میرے ہم عمر دوستوں کے گھر بھی تھے۔ انجم تو اردو ملاوٹ والی سندھی بھی بولتا تھا لیکن منظر، اورنگزیب، شیروانی، حامد اور نجیب کو میں نے کبھی بھی سندھی بولتے نہیں سنا تھا۔ میرے محلے کے وہ ہم عمر دوست لاڑکانہ میں ہی پیدا ہوئے تھے اور پیدائیشی طور پر سندھی اکثریت والے شہر کے باسی ہونے کے باوجود سندھی نہیں بولتے تھے۔ شاید ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے والدین نے سندھ میں آکر آباد ہونے کے باوجود سندھی سیکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا، اس لئے ان کے بچے بھی سندھی زبان سے رشتہ جوڑنے سے محروم رہے۔

محلے میں سب سے بڑا گھر نجیب کے والد ولی صاحب کا تھا۔ ان کے بہت بڑے گھر کی دیوار پر بڑے سے بورڈ پر “ملیح آباد ہاوس” لکھا ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے گھر پر ایک دفعہ اردو مشاعرے کا اہتمام بھی کیا تھا، جس میں جوش ملیح آبادی صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس گھر کے علاوہ ولی صاحب کو Claim میں اور کیا زمین و جائداد ملی تھی لیکن لاڑکانہ کا ذوالفقار باغ، جس کا پاکستان بننے سے پہلے نام گیان چند باغ تھا، اس کے پیچھے ایک بہت بڑا میدان ہوتا تھا، وہ میدان تو نجیب کی فیملی کو کلیم میں ملا ہوا تھا۔ اس میدان پر سال میں ایک مرتبہ تفریحی میلہ لگتا تھا جس میں سو سے زائد بڑے اسٹال، کچھ ہوٹل، زولوجیکل گارڈن، موت کا کنواں اور بہت وسیع رقبہ پر سرکس کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ یعنی وہ میدان اس قدر بڑا تھا کہ پورا میلہ گھومنے کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے کہیں بیٹھنا لازم ہوتا تھا۔ پھر ہوا یہ کہ اس میدان پر پلاٹنگ کرکے ولی صاحب نے اس کا نام غالب نگر رکھا۔ وہ تمام پلاٹ اور گھر بیچ کر ایک دن وہ لاڑکانہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے جانے سے سندھی پڑوسی بھی دکھی تھے۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ زبان سے رشتہ جوڑ لیتے تو شاید ان کا زمین سے بھی رشتہ جڑ جاتا۔۔۔۔ ہمارے محلے میں لسانی تفریق نام کو بھی نہیں تھی لیکن شاید ان کو زمین و جائداد بیچ کر سندھی اکثریت والے شہر سے جانا ہی تھا، سو چلے گئے۔ اپنے پیچھے غالب کے نام کا ایک محلہ بنا کر، فروخت کرکے چلے گئے جو اب شہر کے وسطی علاقے کا ایک محلہ ہے۔

غالب کے نام سے بےشمار سندھی محبت بھی کرتے ہیں اور غالب کو بہت پیار سے پڑھتے بھی ہیں۔ ایک غالب ہی کیا، سندھی تو فیض احمد فیض اور احمد فراز کو بھی بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ فیض صاحب کی شعری کلیات “نسخہ ہائے وفا” کا سندھی زبان کے نامور شاعر امداد حسینی نے سندھی میں ترجمہ کیا ہے، جبکہ فیض صاحب کے نثر کی تمام کتابوں کے سندھی تراجم بھی سندھی میں میسر ہیں۔ سبط حسن کی تو سندھ کے نظریاتی اور انقلابی سوچ والے نوجوانوں کے دل مہر لگی ہوئی ہے۔ کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو کے تو بے شمار تراجم سندھی میں موجود ہیں۔ یہ تمام اردو ادیب سندھی قارئین کے لیے مقبول ترین سندھی مصنفین جیسا ہی درجہ ہی رکھتے ہیں۔

بات نکلی لاڑکانہ کے میرے جاڑل شاہ محلے سے اور غالب نگر سے ہوتی ہوئی آ پہنچی ہے ادب تک! ادب سندھی کا ہو، اردو کا یا کسی بھی دوسری زبان کا، ہے تو زندگی کا عکس، جس میں ہم اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بات چلی ہے ادب کی تو یہ بھی بتا دوں کہ میں نے جس ہندو عورت کوشیلا بائی کا ذکر کیا ہے، وہ بھی ممبئی میں جا بسی۔ سبب تھا سرکاری سطح پر تفریق، کہ ان کے بیٹے بلدیو کو سندھ یونیورسٹی کے شعبہ سندھی میں لیکچرر منتخب ہونے کے باوجود تقرری کا آرڈر نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بلدیو اس دور کی کسی اسکیم کے تحت، تین سال تک آدھی تنخواہ پر لاڑکانہ کے گورنمنٹ کالج میں لیکچرر کی حیثیت سے پڑھاتے رہے لیکن پھر دل برداشتہ ہو کر ان کی فیملی ممبئی چلی گئی۔ وہی بلدیو ممبئی یونیورسٹی میں جاکر لیکچرر بنے اور چند سال پہلے ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ سندھی کے چیئرمین کی حیثیت سے سے رٹائیر ہوئے۔ اس وقت ان کے چھوٹے بھائی منوہر ممبئی یونیورسٹی میں شعبہ سندھی کے چیئرمین ہیں۔ وہ تینوں بھائی پریم مٹلانی، ڈاکٹر بلدیو مٹلانی اور ڈاکٹر منوہر مٹلانی پڑوسی ملک کے نامور سندھی مصنفین میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ وہ آج تک اپنی تحریروں میں لاڑکانہ کے سندھی اور اردو بولنے والے مسلمان پڑوسیوں کا محبت سے ذکر کرتے ہیں۔

سندھ تو ہمیشہ سے محبتوں کی سرزمین رہی ہے۔ ماضی میں باہر سے آئے ہوئے کتنی ہی قوموں کے لوگ سندھ کے خمیر میں شامل ہوکر سندھی بن گئے۔ آج بھی دھرتی سے محبت کے اسی تسلسل کی ضرورت ہے اور یہی محبت وقت کا تقاضا بھی ہے۔ سندھ میں رھنے والے وہ بے شمار سرائیکی، بلوچ اور پنجابی جو اپنے گھروں میں تو اپنی مادری زبانیں بولتے ہیں، لیکن سندھی پڑھتے اور بولتے بھی ہیں، ان کی زبانیں نہ صرف ان کے گھروں میں بلکہ سندھ میں بھی سلامت ہیں، کیونکہ سندھ نے صرف لوگوں کو نہیں بلکہ ان کی زبانوں کو بھی محفوظ رکھا ہے۔ اردو کی تو زیادہ ترویج و ترقی بھی سندھ میں ہوئی ہے اور سندھی بولنے والے لوگ اردو بھی اسی روانی سے بولتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔ مرتی وہ بولیاں ہیں جن کے بولنے والے نہیں رھتے۔ اردو تو سندھ سمیت ہمارے پورے ملک میں بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے، اس لئے اردو کا جنازہ کبھی نہیں نکلے گا، لیکن اردو کے ساتھ ساتھ ہمیں سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو اور دوسری پاکستانی زبانوں کو بھی یکساں اہمیت دینی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).