کچھ حضرات عورتوں کی ہراسانی پر خوش نہیں ہوتے!


اگلے روز “ہم سب” کے توسط سے بی بی سی اردو پر چھپنے والا ایک کالم نظر سے گذرا جس کا عنوان تھا “انسان بنیں مرد نہ بنیں!۔ یہ کالم محترمہ آمنہ مفتی صاحبہ نے تحریر کیا ہے۔ محترمہ آمنہ مفتی صاحبہ ایک کہنہ مشق مصنفہ اور مستند کالم نگار ہیں نیز وہ ایک قابل احترام معلم اور صحافی بھی ہیں۔ بی بی سی پر لکھے گئے ان کے کالم شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ میری البتہ بدقسمتی ہے کہ مجھے ان کے لکھے ہوئے کسی ڈرامہ، فلم یا کتاب کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن ان کے “ہم سب” کے توسط سے سامنے آنے والے کالمز کو میں ضرور پڑھتا ہوں اور قلم پر ان کی گرفت اور موضوعات کے تنوع کی داد دیتا ہوں۔

مذکورہ کالم میں میشا شفیع کے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات سے بات شروع ہوئی جو معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا خاص طور پر مردوں کے حوالے سے احاطہ کرتے ہوئے خواتین کی آواز میں آواز ملانے اور مردوں کو مرد کی بجائے انسان بننے کا خوبصورت مشورہ دینے پر ختم ہوئی۔

اس کالم میں آمنہ مفتی صاحبہ نے اس دکھ کا اظہار بھی کیا کہ میشا شفیع کے علی ظفر پر لگائے جانے والے الزامات کے بعد پرانے گٹر ابل پڑے اور اس حد تک چھلکے کہ اپنا سارا گند ہی عیاں کر گئے۔ غالباً ان کا اشارہ ان تمام خواتین اور حضرات کی جانب تھا جنہوں نے میشا شفیع پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور ان کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی۔ یقیناً ایسی ہر کاوش قابل مذمت ہے اور اس کی کسی طور حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کی جانی چاہیئے۔ بلکہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں بھی کسی کی کردار کشی یا تضحیک کرنا بھی کسی طور قابل تحسین نہیں ہے۔ میں اس معاملے میں  محترمہ آمنہ مفتی صاحبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔

اب بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کوئی بھی باشعور انسان (مرد نہیں) اس بات سے انکار ہرگز نہیں کر سکتا کہ خواتین کو پاکستان اور اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ہراسانی خصوصاً جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔ مگر جہاں اس مسئلے پر سنجیدہ بحث اٹھائی جا رہی ہے وہیں اس معاملے میں غیر سنجیدہ نوعیت کی آوازیں بھی جابجا سنائی دیتی ہیں۔ جب کسی سنجیدہ مسئلے میں غیر سنجیدہ عناصر شامل ہو جائیں تو وہ ایک حقیقی مسئلے کی سنگینی کے تاثر کو کم کر دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ جو خلوص نیت سے ایسے مسائل کا حل چاہتے ہیں وہ الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور مختلف النوع آرا کی بنیاد پر ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا وزن ترازو کے کس پلڑے میں ڈالیں۔

محترمہ آمنہ مفتی صاحبہ کے کالم میں 71 الفاظ ایسے ہیں جو غالباً غلط فہمی کی بنیاد پر تحریر کیے گئے اور ان الفاظ کی وجہ سے کالم کی سنجیدگی کا تاثر بڑی حد تک متاثر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ 71 الفاظ یہ ہیں: “ کچھ حضرات نے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں بہت خوش ہوتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ انھیں بھی ان سے بڑی عمر کی خواتین نو عمری میں ہراساں کرتی رہی ہیں۔ یقیناً ان کے ساتھ ایسا ہوا ہو گا اور ایسا ہوتا ہو گا لیکن کیا انھیں نظر انداز کر دیے جانے کی حد تک کم واقعات کے باعث یہ مان لیا جائے کہ خواتین کو ہراساں نہیں کیا جاتا؟”۔ ممکنہ طور پر ان کا اشارہ “ہم سب” پر ہی شائع ہونے والی ایک بلاگ “عورتیں بھی کم عمر لڑکوں کو ہراساں کرتی ہیں کی جانب تھا۔ تاہم اگر ایسا نہیں بھی ہے تب بھی یہ الفاظ اپنے چناؤ کے اعتبار سے نہ صرف نامناسب بلکہ باقاعدہ طنزیہ اور تضحیک آمیز ہیں۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر کچھ انسان معاشرے میں پائی جانے والی ایک برائی کو احاطہ تحریر میں لاتے ہیں جس کو ہمارے نیم خواندہ معاشرے میں سرے سے مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا اور اس پر عموماً ہمارے معاشرے میں بات بھی نہیں کی جاتی تو اس میں ان کی خوشی کا اظہار کہاں سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ ہراسانی اور خوشی دو متضاد کیفیات ہیں۔ کوئی بھی انسان ہراساں کیے جانے پر خوش ہرگز نہیں ہو سکتا ورنہ وہ ہراسانی ہی نہیں کہلائے گی۔ اگر تو یہ 71 الفاظ غلط فہمی کی بنیاد پر تحریر نہیں کیے گئے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان الفاظ میں انسانوں کا مذاق اڑایا گیا ہے کہ وہ خوش ہو کر اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی کا تزکرہ کر رہے ہیں؟ محترمہ آمنہ مفتی صاحبہ جیسی بلند پایہ کالم نگار سے اس بات کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی لہٰذا میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یہ الفاظ محض غلط فہمی کی بنیاد پر کالم کا حصہ بنا دیئے گئے ہیں۔

جنسی ہراسانی کا تعلق جنس کے بجائے مخصوص ذہنی اپچ سے ہے اور اس میں جو چیز سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہے وہ بچوں کی بنیادی تربیت ہے۔ محترمہ آمنہ مفتی صاحبہ نے اپنے کالم میں یہ لکھا ہے کہ ان کے بطور معلم سالہا سال کے تجربات میں ایک دو طلبا ایسے آئے جنہیں تعلیم کے ساتھ تہذیب بھی انہیں سکھانی پڑی۔ سالہا سال میں ایک دو طلبا کی شرح کو نظر انداز کیے جانے کی حد تک کم نہیں مانا جا سکتا۔  لیکن اگر کچھ انسان بڑی عمر کی خواتین کی جانب سے اپنے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات کو “بہت خوش ہو کر” بیان کریں تو یقیناً یہ نظر انداز کر دینے کی حد تک کم واقعات ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہو گا مگر کشمالہ طارق صاحبہ کچھ اور فرماتی ہیں۔ ان کے مطابق ان کے سیل کو انسانوں کی جانب سے بھی ہراسانی اور جنسی ہراسانی پر مبنی شکایات موصول ہوتی ہیں۔ چاہے صنفی اعتبار سے شکایات کا تناسب خواتین کے حق میں زیادہ ہے مگر انسانوں کی شکایات نظر انداز کیے جانے کی حد تک کم بہرحال نہیں ہیں۔

خواتین کی جانب سے انسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے تمام تر جارحانہ رویئے کے باوجود میں تمام انسانوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ خواتین اور انسانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائیں بلکہ جہاں کہیں بھی کسی کمزور اور مظلوم کے ساتھ زیادتی ہوتے ہوئے دیکھیں وہاں “مرد” ہونے کے ناطے اس زیادتی کو روکیں اور مظلوم کا ساتھ دیں۔

اور ساتھ ایک درخواست خواتین سے بھی ہے۔ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور یہ دنیا بھی کچھ دو اور کچھ لو کے تحت چلتی ہے۔ عزت اور احترام کا مطالبہ بالکل جائز اور مبنی بر حق ہے مگر عزت کمانے کے لیے عزت کرنی بھی پڑتی ہے۔

نوٹ: اس تحریر میں مرد کی جگہ پر لفظ انسان محترمہ آمنہ مفتی صاحبہ کے پرخلوص مشورے کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad