کرم ایجنسی سے خوف اور بے یقینی کب ختم ہوگی


دریائے کرم کے ساتھ کشادہ مگر پر پیچ راستوں پر ٹل سکاؤٹس کی چیک پوسٹ سے گزر کر جب برف پوش پہاڑ نظر آجائیں تو سڑک کے کنارے چنار کے درخت اپنے نام کی نسبت سے موسوم پارا چنار میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ حد نگاہ لہلاتے کھیتوں میں اپریل کے آخری عشرے میں جانوروں کو گھاس چرتے اور لوگوں کو کام کرتے دیکھ کر ان کی خوشی وہی محسوس کر سکتا ہے جوخود بھی طویل برفانی سردیاں کمروں میں بند انگیٹھی سے چمٹ کر گزارنے کے تجربے سے گزر چکا ہو۔

کسی بھی کوہسار کی طرح پارا چنار کے وسیع و عریض میدانوں اور ندی نالوں کی گزرگاہوں کے کنارے آباد یہاں کے مکینوں کے گھر حسب استظاعت چھوٹے یا بڑے ہوسکتے ہیں مگریہاں ہر گھر اندر سے یکساں طور پر صاف ستھرا اور آرام دہ اور اس میں بیت الخلاء اور باورچی خانہ ہمیشہ صاف ستھرا ہی ملے گا۔

سالہا سال برف کی چادر اوڑھے کوہ سفید پہاڑ کے دامن میں بسنے والے قبائل میں طوری اور بنگش نمایاں ہیں۔ طوری نسلی طور پر ترک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بنگش پشتونوں کا ایک قبیلہ ہے جو افغانستان سے اٹک تک پھیلا ہوا ہے۔ طوری قبیلہ کی غالب اکثریت عقیدے کے اعتبار سے اثناء عشری اہل تشیع ہے جبکہ بنگش قبیلے میں سنی اور شیعہ دونوں مسالک کے لوگ ملتے ہیں۔ یہاں بولی جانے والی پشتو زبان کا لہجہ دری یا فارسی سے ملتا جلتاہے جس میں الف عموماً واؤ کے صوتی تاثر کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے جیسا کہ یہاں چائے کو چوئے کہا جاتا ہے۔ لہجہ انتہائی نرم اور شیریں، اظہاریے میں عاجزی و انکساری یہاں بولی جانے والی پشتو زبان کی پہچان ہے۔

پاراچنار شہر سے چند کلومیٹر آگے افغانستان کی سرحد ہے جہاں تک ایک کشادہ سڑک تعمیر کی گئی ہے جس پر گاڑیوں کی آمد ورفت آج کل سرحدی حالات میں کشیدگی کی وجہ سے بند ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستقل امن قائم ہو تو پارا چنار ایک بہت بڑا تجارتی مرکز بن سکتا ہے کیونکہ یہاں سے کابل اور افغانستان کے دیگرتجارتی مراکز انتہائی قریب پڑتے ہیں۔ پارا چنار میں ایک ائیر پورٹ بھی بنایا گیا ہے جو اب ہوا بازی کے لئے زیر استعمال نہیں مگربوقت ضرورت بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ برطانوی راج کے زمانے میں بنی عمارتیں خاص طور پر یہاں بنا ایک ریسٹ ہاؤس اس دور کی یاد گار ہے۔ قبائلی علاقوں کے برعکس یہاں خواتین کی تعلیم کا تناسب بہت زیادہ ہے اور خواتین کا پوسٹ گریجویٹ کالج بھی موجود ہے۔ شہر میں ایک پبلک لائبریری بھی ہے جس سے کتابیں پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد استفادہ کرتی ہے۔

پارا چنار کے محل وقوع کی مثال اس دوشیزہ کی سی ہے جس کا حسن اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ افغانستان میں روسی مداخلت روکنے کے لئے لڑی امریکی جنگ اور اس کے بعد افغان گروہوں کے آپس کے جدل کے دوران پارا چنار کو ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ پارا چنار کی اہمیت کو جنگی ماہرین طوطے کی چونچ سے تشبیہ دیتے ہیں جو افغانستان کے اندر گھسی ہوئی ہے یعنی تینوں اطراف سے یہ افغانستان میں گھرا ہوا ہے۔

افغانستان میں روسی افواج کے خلاف جنگ میں مختلف جنگجو قبائلی سرداروں اور مذہبی علمأ نے جب امریکہ اور سعودی عرب سے اتحاد کیا تو ان کو بھی افغانستان میں اپنی کارروائیاں کرنے کے لئے اس زمین کی ضرورت پڑی۔ یہاں کے قبائل نے جب جنگجو سرداروں کو اپنی زمین دینے اور یہاں سے افغانستان میں کارروائیاں کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا تو یہ ان کا جرم بن گیا۔ یہاں افغان جنگجوؤں اور مہاجرین کی طرف سے مسلح حملے کیے گئے اور پائین کرم سے بنگش اور طوری قبیلے کے لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ جن لوگوں نے اپنے آبائی شہر سے نکلنے سے انکار کیا تو ان کی لاشیں نکالی گئیں۔

2001 ء کے بعد افغانستان کی صورت حال بدل گئی اور امریکہ کے خلاف لڑنے والوں کو پارا چنار کی ایک دفعہ پھر ضرورت پڑی۔ اب کی بار پارا چنار کے لوگوں نے بات نہیں مانی تو ان کو سبق سکھانے کے لئے آمد و رفت کا واحد راستہ منقطع کر دیا گیا۔ 2007ء سے 2012ء کے پانچ سالوں میں 3500 سے زائد لوگ کو قتل ہوئے۔ پارا چنار میں پاکستان کی طرف سے اشیائے ضروریہ کی رسد بند ہوئی تو کابل کے راستے فراہمی کی کوشش کی گئی مگر وہاں بھی حملے ہوئے تو پارا چنار میں صورت حال اتنی مخدوش ہوئی کہ خوراک اور جان بچانے والی دوائیاں ناپید ہوگئیں۔ جب کٹی پٹی لاشیں یہاں پہنچیں پاراچنار میں بسنے والے دوسرے مسالک کے لوگ بھی ے تشدد کا شکار ہوئے جس کا ذکر یہاں کے لوگ آج بھی بڑی ندامت کے ساتھ کرتے ہیں۔

ناکہ بندی کے پانچ سالوں میں یہاں کے محصور لوگوں پر جو گزری اس کی کہانیاں دل دہلانے والی ہیں۔ جو لوگ اپنے علاج، تعلیم یا کاروبار اور ملازمت کے لئے باہر تھے وہ گھر واپس نہ آسکے یا پھر آنے کی کوشش میں لاشوں میں بدل کر پیوند خاک ہوئے۔ یہاں سے علاج کے لئے باہر جانا ممکن نہ ہوا تو کئی بغیرعلاج چل بسے۔ بچے جو آٹھویں جماعت میں ملک کے دیگر شہروں میں معیاری تعلیم کے لئے گھر سے نکلے تھے وہ گریجویٹ ہونے تک اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کی شکل نہ دیکھ پا ئے۔ کچھ بچوں کو جنھیں معیاری تعلیم حاصل کرنا تھا وہ اپنے گھروں میں محصور ہوئے۔

ان پانچ سالوں کی محصوری میں ایک نسل جوان ہوئی جس کے ذہن میں تلخ یادیں ہیں جو وہ بھول نہیں پاتی۔
پارا چنار کے لوگ جب مایوس ہوئے تو انھوں نے بڑی تعداد میں ملک سے ہجرت بھی کی۔ آئی ٹی کے ماہر حبیب جو ناکہ بندی کے دوران نادرا کے دفتر کا انچارج تھا اس نے افغانستان سے اپنی جیب سے کاغذ اور اسٹیشنری منگوا کر دفتر چلایا تھا آج کل اسٹریلیا میں ہے۔ حبیب کے مطابق صرف ملبرن اور سڈنی میں 35000 کرم ایجنسی کے لوگ مقیم ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں 2007 ء کے بعد مہاجرت کرنے والوں کی تعداد کئی لاکھ ہے۔

کرم ایجنسی میں داخل ہوتے ہوئے ہنگو اور کوہاٹ کی دیواروں پر حکیم بابا سربجیت سنگھ کے اشتہار اور سڑک کنارے نیلی اور پیلی پگڑیاں سر پر رکھے سردار کھڑے نظر آتے ہیں جو ان علاقوں میں طالبان کے قبضے کے دوران یہاں سے بے دخل کر دیے گئے تھے۔ کچھ واپس آگئے ہیں اور زیادہ تر جان کی امان کی تلاش میں اب تک سرگرداں ہیں۔

کرم ایجنسی میں امن واپس آگیا ہے اور ہجرت کرکے جانے والے بھی امیدوں کے ساتھ لوٹ آئے ہیں مگر امن پر یقین کو ابھی واپس آنا ہے۔ ہنگو میں سڑک کنارے کھڑے سردار جی اور پارا چنار کے حبیب کے چہروں پر اب بھی بے یقینی دیکھی جا سکتی ہے جو پوچھتے ہیں امن کتنی دیر رہے گا۔ ان کو خوف اب بھی ہے کہ ان کے شہروں کے باہر لگے ناکوں پر لوگ بدل جائیں گے اور وہی لوگ واپس آ جائیں گے جو ان کے کپڑے اتار کر ان کے جسموں پر عقیدوں کے نشان ڈھونڈ کر ان کے ہاتھ میں موت کا پروانہ تھما دیں گے اور ان کی کٹے ہوئے اعضا گھر وں کو بھیج دیں گے۔ اب بھی دھماکوں کی آوازوں سے جب فضا گونج اٹھتی ہے تو بکھرے انسانی جسموں میں وہ اپنے عزیزوں کو تلاش کرتے ہیں۔

کرم ایجنسی میں ناکوں، چوکیوں اور پہروں سے امن تو بحال ہوا ہے مگر امن پر یقین کو واپس آنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پارا چنار میں امن پر یقین کے لئے گلگت، کوئٹہ، ڈیرہ اسمعٰیل خان، جھنگ اور کراچی میں بھی امن لازمی ہے۔ جب تک ملک میں عقیدے اور مسلکی اختلاف پر قتل بند نہیں ہوتا پارا چنار کے لوگ خوفزدہ رہیں گے اور جب تک خوف موجود رہے گا بے یقینی بھی موجود رہے گی۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan