صاحب آپ بھی نقل کر لیجیے


امتحان چاہے کسی بھی درجے کے ہوں۔ بوٹی مافیا کے سر گرم ہونے، اور پرچہ آؤٹ ہو نے کی خبریں ہر بار سامنے آتی ہیں۔ ہم چونکہ سندھ میں رہتے ہیں اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں یہ رجحان دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اب اس میں کتنی صداقت ہے، یہ تو دوسرے صوبوں کے رہنے والے ہی جانتے ہوں گے، لیکن ایک بات جو تمام صوبوں کے تعلیمی نظام میں یکساں ہے وہ بوگس امتحانی طریقہء کار اور فرسودہ تدریسی نظام ہے۔ جس کے تحت ایمانداری سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات بھی کچھ سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم صرف ڈگری یافتہ ہو جا تے ہیں، جس کا مصرف محض بہتر نوکری ہوتا ہے۔ اچھا یہ ہی نہیں کہ بہتر نوکری بلکہ فوکس اس پر کیا جا تا ہے کہ ایسے کس مضمون کا انتخاب کیا جا ئے جس میں ڈگری کے حصول کے بعد آمدنی کمانے کے زیا دہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوں۔ آپ کے مطمع نظر جو چیز ہو آپ کو وہی حاصل ہو تی ہے۔ سو زندگی کو شوق کے عیوض خواہشات پر قربان کر دیا جا تا ہے۔ مہنگے شو پیسز، خشبویات، ہوائی سفر اور پیاروں کی تھوڑی سی توجہ حاصل کر نے کے لیے زندگی مثالِ سگ ہوجا تی ہے۔ روپے کے پیچھے بھونکتی ہوئی دوڑتی رہتی ہے۔

ہم نے سنا، دیکھا اور پڑھا ہے کہ تمام مشہور اور اپنے شعبوں میں ماہر افراد، اپنے تعلیمی دور میں ایک اوسط طالب علم تھے۔ ایسے ذہین افراد کا دل و دماغ درسی کتابوں میں شامل احمقانہ موضوعات کی جانب مائل نہیں ہو تا نتیجتاً وہ یا تو فیل ہو جا تے ہیں یا بڑی مشکل سے پاس ہو تے ہیں۔ جیسے تیسے گریجویشن یا ماسٹرز کی ڈگری لیتے ہیں اور پھر من پسند شعبہ چن کر عملی زندگی میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ کامیاب اور پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ایسے خوش نصیب انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جن پر ان کے تعلیمی دور کے دوران، ان کے والدین کی جانب سے ان کی مرضی کے مضمون، ان کی خواہش کے گریڈ، ان کے خوابوں کی تکمیل میں بچے نے جلدی سے ایک ” کامیاب انسان ‘‘ بننے کے لیے اپنے بچپن، صلاحیت، تخلیقی قوت، شوق اور مشاغل کو قربان نہ کر دیا ہو۔

جن اسکولزاور کالجز میں پڑھائی اور حاضری میں سختی نہیں ہوتی۔ وہاں طلبا و طالبات کے لیے کافی وقت بچ جاتا ہے کہ وہ کسی دوسری سرگرمی میں بھی اپنی اہلیت اور صلاحیت کے حساب سے حصہ لیں لیکن جہاں پڑھائی ہوتی ہے وہاں کا حال سب سے برا ہے۔ طلباء طالبات کی سو فی صد حاضری یقینی بنا نے کے لیے بچوں کو انتباہ کیا جا تا ہے۔ کہ انہیں امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جا ئے گا۔ اس دھمکی کے زیرِ اثر طالب علموں کی حاضری سو فی صدہوتی ہے۔ ایسے تعلیمی اداروں کے عمدہ تعلیمی ریکارڈ کی شہرت کی وجہ سے اچھے گریڈ کے حامل طالب علم یہاں داخلہ لیتے ہیں۔ لیکن آپ کے خیال میں کیا یہاں پڑھائی ہوتی ہے؟ جی نہیں یہاں صرف لکھائی ہوتی ہے۔

ساٹھ طالب علموں کی جماعت میں ڈسپلن قائم کرنے کا ایک آسان سا حل تمام اساتذہ کے پاس موجود ہے کہ جماعت میں جاتے ہی طویل نوٹس لکھوا دیے جائیں۔ اب بچوں کے سر میں درد ہو یا ہاتھ میں، ان کے قلم کی سیاہی خشک ہو یا دماغ۔ ٹیچر کی کلاس میں مکمل ڈسپلن نظر آرہا ہے۔ اور یہ ہی اس کالج کی وجہء شہرت ہے۔ بچہ امتحان کے دنوں میں طویل نوٹس کا بغیر سمجھے رٹا لگاتا ہے۔ اتنے طویل جوابات چیک کرنے کا ممتحن کے پاس وقت کہاں۔ اتنی خوب صورت رائٹنگ میں بچے نے اتنا طویل جواب لکھ مارا ہے۔ ابتدائیہ پڑھ کر ہی جواب کی درستی کا اندازہ ہو گیا۔ بچے کو پورے نمبر مل گئے۔ امتحانی نتائج میں بھی بچے اور کالج کے نتائج سرِ فہرست رہے۔ والدین بھی خوش اور اساتذہ بھی اپنے نوٹس پر نازاں۔

دیکھیے صاحب بچوں کو کامیاب ہونا ہے وہ بار بار امتحان دینے کی فکر سے آزاد ہو نے کے لیے نقل کر کے یا رٹّا لگا کر کسی بھی طرح پاس ہونا چاہتے ہیں۔ وہ تو نقل سے باز نہیں آرہے۔ آپ ہی عقل سے کام لیجیے۔ دیگر ممالک کے امتحانی اور تدریسی طریقہ ء کار کی کچھ نقل آپ بھی کر لیجیے۔ اس دور میں بچے کی ذہانت، تخلیقی، صلاحیت اور اہلیت اس فرسودہ امتحانی اور تدریسی طریقہ کار کی متقاضی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ والدین فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کے ساتھ نصابی، تعلیمی نظام اور امتحانی طریقہء کار میں انقلابی تبدیلیوں کے مطا لبے کو بھی شامل کریں۔ تاکہ ہمارے بچے صحیح معنوں میں ”مستقبل کے معمار‘‘ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).