گرو آسارام کا جرم اور مذہب کا منافع بخش کاروبار


4 کروڑ پیروکار اور 10 ہزار کروڑ سے زائد کی جائیداد کے مالک گرو آسارام باپو کو ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کے الزام میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے اور سنائی گئی سزا تاحیات عمر قید ہے۔ گرو آسارام کا اصل نام اسومل ہرپلانی ہے اور وہ پاکستان کے صوبے سندھ میں پیدا ہوئے۔ بعز ازاں تقسیم بھارت ہجرت کرنے کے بعد انہوں نے گجرات کے شہر احمد آباد کے قریب ایک دریا کنارے جھونپڑی سے شروعات کی۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ پر موجود معلومات کے مطابق آج ان کے 400 سے زائد آشرم موجود ہیں اور مشہور سیاستدان سے لے کر فنکار برادری میں بھی ان کے بھگت ہیں۔ ان کا سیاسی اثر رسوخ اتنا ہے کہ اسمبلی میں اس معاملے پر بحث کے دوران ایک ہنگامہ برپا ہوا اور مائیک تک اکھاڑ پھینک دیے گئے۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی ان کے گجرات میں واقع آشرم جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آسارام کے ساتھ مودی صاحب کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں۔

جس متاثرہ لڑکی سے زیادتی کا الزام آسارام پر لگایا گیا اس کا پورا خاندان آسارام کا عقیدت مند تھا۔ یہاں تک کہ اس لڑکی کے والد نے اپنے پیسوں سے آسارام کا آشرم تعمیر کروایا تھا اور بہتر تربیت و تعلیم کے لئے اپنے بچوں کو آسارام کے سائے میں دے دیا کہ وہ ان سے ”فیض“ حاصل کریں مگر آسارام نے ہوس کے ہاتھوں مغلوب ہو کر ان کی 16 سالہ بیٹی کو ایک دن اپنی کٹیا میں بلایا اور اس سے زیادتی کر ڈالی۔

آسارام کے علاوہ ان کے بیٹے پر بھی زنا بالجبر کے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ ناجائز قبضے کی زمین پر آشرم کی تعمیر، کالا جادو، زمینوں پر قبضے اور ناجائز اثاثوں کے الزامات بھی شامل فہرست ہیں۔ آسارام کے خلاف گواہوں پر مختلف اوقات میں جان لیوا حملے ہوتے رہے، گواہوں پر تیزاب سے بھی حملہ کیا گیا اور کچھ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ایک گواہ تاحال لاپتہ ہے۔ آسارام کو مجرم قرار دینے کے بعد جودھپور میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور 4 ریاستوں میں اضافی نفری بھی تعینات کر دی گئی۔

یہ نریندر مودی کے دور اقتدار میں دوسرا بڑا کیس ہے جس میں عدالت نے کسی گرو کو سزا سنائی ہو اور حکومت نے اس پر عملدرآمد کے لئے اقدامات کیے ہوں۔ اس سے پہلے گرمیت رام رحیم انسان کو زیادتی کے دو مقدمات ثابت ہونے پر دس، دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ گرمیت رام رحیم ڈیرہ سچا سودہ کے سربراہ تھے اور تقریبا ایک کروڑ پیروکار ان کے مختلف آشرم میں رہتے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کے کروڑوں پیروکار موجود ہیں۔ انہیں سزا کے بعد جو ہنگامے پھوٹ پڑے اس میں 38 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

مندرجہ بالا دو واقعات کے علاوہ پوری دنیا میں اور ہمارے ملک پاکستان میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جہاں مذہب یا عقیدے کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا جسمانی، ذہنی اور مالی استہصال کیا جاتا ہے۔ گرو، بابا، سائیں یا پیر صاحب کے ہاتھوں جنسی زیادتی، جسمانی تشدد، دولت لٹانا یا اپنے ہی کسی پیارے کی جان لے لینا وہ واقعات ہیں جو ہم متعدد بار خبروں کی زینت بنتے دیکھتے ہیں اس کے باوجود ایسے واقعات بار بار ہوتے رہتے ہیں۔

آپ نے خبروں میں سنا ہو گا کہ جلالی بابا نے ڈنڈے مار مار کے جن نکالتے ہوئے جان ہی نکال دی، یا گرم سلاخوں سے جسم داغ دیا، یا خاتون کو کہا کہ اپنے شوہر کو قابو کرنا ہے تو اپنے بچے پہ چھری پھیر دو، یا کہا کہ میری خوشنودی حاصل کرنی ہے تو اپنا آپ مجھے پیش کرو۔ یہ ساری فرمائیشیں دراصل اپنی جنسی اور مالی آسودگی کے لئے بابا جی ڈیمانڈ کرتے ہیں کیونکہ ہوتے تو وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہی ہیں مگر انہیں خدا، فرشتہ یا سادھو سمجھنے والے اپنا سب لٹانے پر اس لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی کچھ خواہشات پوری ہونے کا لالچ ہوتا ہے۔ کسی کو زیر کرنا، کسی کو قابو کرنا یا کسی کی بربادی مقصود ہوتی ہے۔ یہ سب ذہن کی اختراع اور جہالت کی انتہا ہوتی ہے کہ کسی اپنے ہی جیسے انسان کو انسان سے زیادہ سمجھ کر اس سے اپنی زندگی بہتر بنوانے کی خواہش کی جائے۔

اسی جہالت کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر ذہن کو ماوف کرنے والے دراصل انسان ہی ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات کو پورا کرتے ہوئے مذہب اور عقیدے کی آڑ لیتے ہیں کیونکہ دنیا میں عقائد سے زیادہ آج تک کوئی منافع بخش کاروبار نہ آ سکا۔ مذہب سے اچھی مارکیٹنگ اسٹریٹیجی کوئی اور بن نہ سکی اور روحانیت سے زیادہ کبھی کوئی کسی سے بلیک میل ہو نہیں پایا۔

آپ نے دیکھا ہو گا مشہور کھلاڑی، فنکار، سیاستدان اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کسی انگوٹھی، مٹی، پتھر، رنگ، کپڑے، موتی، ڈوری، لاکٹ میں قید ہوتے ہیں۔ وہ دراصل خوش بختی یا نحوست کے دائرے میں گھوم رہی ان کی اپنی ذہنیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی انسان کی انگلی کے اشارے پر اٹھ بیٹھ رہے ہوتے ہیں بلکہ آپ نے ہمارے یہاں تو دیکھا ہو گا کہ کوئی سیاستدان پہاڑ پہ چڑھ گیا، کوئی سمندر سے قریب اپنے گھر میں رہنے لگا، کسی کھلاڑی نے مساجد بنوانی شروع کر دیں تو کوئی جا کر کسی پیر کے ہاتھ چومنے لگا۔

ان تمام کاموں کے پیچھے دراصل خوش بختی کا لالچ ہوتا ہے جو کسی انسان کے کہنے پر مختلف کام کرواتا ہے۔ مذہب اور عقیدہ کسی بھی انسان کا حق اور ذاتی معاملہ ہے۔ آپ نہ کسی سے یہ چھین سکتے ہیں اور نہ کسی پر مسلط کر سکتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہب کے ہی نام پر انسان دوسرے انسان کو سب سے زیادہ بلیک میل کرتا بھی ہے اور خود بھی ہوتا ہے۔ اتنی پابندیاں انسان پر خدا نہیں لگاتا جتنی دوسرا انسان لگا دیتا ہے۔ اتنا عاجز انسان اپنے خالق کے آگے نہیں ہوتا جتنا وہ دوسرے انسان کے آگے جھکا جاتا ہے۔ یہ سب صرف ذہن کی غلامی اور نفسیات کا کھیل ہے جس میں ایک انسان دوسرے سے کھیل رہا ہے اور دوسرے کو پتا بھی نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کا کھلونا بن چکا ہے۔
(تصاویر: بشکریہ گوگل امیجز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).