سعودی عرب: جہاں سر خوف سے جھکے رہتے تھے


سعودی عرب میں ان دنوں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ شہری آزادیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عشروں سے مقتدر چہرے اقتدار کے منظر سے گائب ہو رہے ہیں اگرچہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان اقتدار پر اپنی گرفت پوری طرح مضبوط کر چکے ہیں یا ابھی ان کے خلاف ملاؤں اور اقتدار کے دیگر امیدواراوں کی طرف سے ردعمل سامنے آنا باقی ہے۔ ایسے میں سعودی عرب میں ماضی قریب کی ایک تصویر پر دوبارہ نظر ڈالنا مفید ہو گا۔ پاکستان میں انگریزی صحافت کے لیجنڈری نام خالد حسن نے مارچ 2002 میں سعوری عدب کے معاشرتی حلات پر ایک مضمون لکھا تھا ذیل مین اس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

خالد حسن سربرآودہ انگریزی صحافی ہی نہیں تھے، اس خطے میں انگریزی زبان کے طنّاز نثر نگار کے طور پر بھی ان کا مقام بہت بلند تھا۔ ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے شائستہ، زندگی سے محبت کرنے والے اور نرم گو خالد حسن کی ظاہری شخصیت سے ان کی بت شکن صحافت کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا تھا۔ خالد حسن فولاد کے قلم سے لفظوں کی کلیاں تراشتا تھا۔ جمہوری، روادار، عوام دوست اور مہذب دنیا کے خواب دیکھنے والا یہ شخص فروری 2009 میں رخصت ہو گیا۔

٭٭٭       ٭٭٭

چند برس پہلے میرے ایک ڈاکٹر دوست نے ان دنوں کا واقعہ سنایا جب وہ سعودی عرب کے ایک سرکاری ہسپتال میں فرائض انجام دے رہا تھا۔ ایک روز وہ اپنے اپارٹمنٹ سے جینز اور شرٹ پہنے سامنے والے سٹور سے سگریٹ خریدنے گیا ( جی ہاں موصوف کا تعلق ڈاکٹروں کی اس قبیل سے ہے جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں) وہ سٹور تک نہیں پہنچ پایا کیونکہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص، جس کا تعلق سعودی عرب کے قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تھا، نے اس سے رہائش کے حوالے سے مناسب دستاویزات دکھانے کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں رہنے والے تارکین وطن کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر وقت اپنی قانونی دستاویزات (اقامہ) اپنے پاس رکھیں۔ میرے دوست نے ان صاحب کو بتایا کہ وہ سڑک کے اس پار اپنے فلیٹ میں رہتا ہے اور 5منٹ کے اندر اندر اسے تمام درکا ر دستاویزات فراہم کر سکتا ہے۔ مگر میرا دوست غلطی پر تھا۔ پولیس اسے پکڑ کر تھانے لے گئی اور لاک اپ میں بند رکھا۔ میرے ڈاکٹر دوست کو حراست کے دنوں میں نہ تو اپنی اہلیہ اور نہ مالکان سے رابطہ کرنے کی اجازت دی گئی ۔بعدازاں جیسے ہی اسے آزادی نصیب ہوئی اس نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے وطن واپس لوٹ آیا۔

مجھے ایک مرتبہ کراچی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے دوران سفر گفتگو کا اتفاق ہوا۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور خلیجی ممالک میں ڈرائیونگ کر چکا تھا ( یہ انکشاف مجھے اس سے گفتگو کے دوران ہوا) ناظم آباد کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے ہوئے اس نے کہا کہ ” میں گھنٹوں بلا معاوضہ گاڑی چلانے پر تیار ہوں مگر میں کسی عرب باشندے کو چاہے وہ کوئی شہزادہ ہی کیوں نہ ہو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ ” میں نے اس سے جواب میں کہا کہ یہ کوئی ذمہ دارانہ اور ہوش مندانہ طرز عمل نہیں تو اس نے گاڑی کی رفتار کم کئے بغیر گردن موڑ کر سوال کیا کہ آپ کہاں کام کرتے رہے ہیں۔ میرا جواب تھا یورپ میں تو اس نے کہا کہ اگر عرب ممالک میں کام کرتے رہے ہوتے تو اس طرح کے ریمارکس نہ دیتے۔ آپ کو خود اندازہ ہو جاتا کہ میرے کہنے کا مطلب کیا ہے۔ پھر مجھے اس ڈرائیور نے اس نامناسب رویے کی روداد سنائی جو ایک ایماندار، جفاکش اور راسخ مسلمان کو عرب ممالک میں برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس نے کہا اگرچہ میں پاکستان میں اتنے زیادہ پیسے نہیں کما سکتا مگر یہاں کوئی مجھے “مسکین” کہہ کر نہیں پکارتا۔ کوئی دوسرے درجے کا شہری تصور نہیں کرتا۔ اس نے بتایا کہ عرب میں اگر خدانخواستہ کوئی تارک وطن سڑک کے حادثے کا شکار ہو تو یہ پوچھے بغیر کہ غلطی کس کی ہے۔ یعنی عرب کی یا تارک وطن کی سزا غیر ملکی ہی کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اس ضمن میں واحد استثنیٰ ” گورا صاحب” ہی کو حاصل ہے۔

ہر ہفتے ملکی اخبارات کے اندرونی صفحات میں کئی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ سعودی عرب میں اتنی تعداد میں پاکستانیوں کے سر قلم کر دئیے گئے لیکن ہمارے ملک میں ہمارے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سلوک پر کہیں سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی۔ کسی طرف سے سوال نہیں پوچھا گیا کہ آیا سزا پانے والوں کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے یا وکیل کی خدمات لینے کا موقعہ ملا؟ حتیٰ کہ قومی اخبارات میں ایک چھوٹا سا ادارتی نوٹ تک نہیں لکھا جاتا۔

انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے 36 صفحات سعودی بادشاہت کے حوالے سے ہیں اور میں کسی کو یہ تجویز کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے اس رپورٹ کے متعلقہ صفحات پڑھے کیونکہ اگر اس نے ایسا کیا تو پھر کھانے سے اس کا دل اوب جائے گا۔ مباہت “Mubahit” یا داخلی سلامتی فورس اور مطوہ یا مذہبی پولیس جس کا کام گناہوں کو روکنا اور نیکی کو فروغ دینا ہے (شائد اب آپ کو معلوم ہو جائے کہ طالبان کو امر بالمعروف و نہی المنکر کا محکمہ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی) اپنے لئے ضابطے خود وضع کرتے ہیں اور اپنی ذات میں خود قانون ہیں۔

شریعت کے مطابق کوئی بھی جج دباﺅ یا تشدد کے ذریعے کیا جانے والا اعتراف جرم کو قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے ۔ سعودی وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں پیش کئے جانے والے بہت سے مقدمات میں مبینہ ملزموں سے تشدد اور ان کو ہراساں کر کے اعتراف جرم کرانا عام ہے۔ اور اس ضمن میں پولیس حکام تشدد، بے خوابی، کوڑے مارنے کے حربے استعمال کرتی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی حکومت نے اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے عدم تشدد کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

 سعودی عرب کی مذہبی پولیس فورس ملکی و غیر ملکی خواتین و حضرات کو ہراساں کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے۔ مختلف اقدامات کے تحت ملنے والی سزاﺅں میں سر قلم کرنا، سنگسار کرنا، ہاتھ یا پاﺅں کاٹنا عام ہے۔ سیاسی یا مذہبی جرائم پر کوڑے مارے جاتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شراب نوشی کے الزام میں گرفتار ہونے والوں کے ساتھ قدرے نرم رویہ اختیار کیا جا تا ہے۔ انہیں کوڑے مارنے کی بجائے بید سے سزا دی جاتی ہے۔ اگرچہ سعودی قوانین میں غیر قانونی حراستوں کی ممانعت ہے مگر اس کے باوجود مذہبی پولیس فورس کسی بھی شخص کو گناہ کا مرتکب گردانتے ہوئے پابند سلاسل کر سکتی ہے۔

معروف گلوکارہ مسرت نذیر جو ابھی تک درختوں کے جھنڈ میں اپنا ” لونگ” تلاش کر رہی ہیں نے ایک بار مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے دس سالہ بیٹے کے ہمراہ سعودی عرب گئیں جب وہ ریاض ائیر پورٹ پر پہنچیں تو ان کا 10 سالہ بیٹا تھکن سے چور ہو چکا تھا اور ائیر پورٹ کے لاﺅنچ میں وہ ان کے کاندھے پر سر رکھ کر سستانے لگا۔ اس پر وہاں کھلبلی مچ گئی اور مذہبی پولیس کے چار پانچ اہلکار وہاں آدھمکے اور انہوں نے بغیر کوئی سوال کئے ان کے بیٹے کو ان سے الگ کیا اور زور زور سے بولنے اور بد تمیزی کرنے لگے۔ 10 سالہ بچہ اس صورت حال سے مزید پریشان اور ہراساں ہو گیا۔ بعدازاں انہیں بتایا گیا کہ سعودی عرب میں سر عام مرد و عورت کے جسمانی رابطے کی ممانعت ہے چاہے وہ ماں بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ مسرت نذیر نے بتایا کہ یہ ایسا ہولناک تجربہ ہے جسے وہ فراموش نہیں کر سکتیں۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ کو سعودی عرب جانا ہو تو آپ کو اپنے ایمان کی مضبوطی کا یقین ہونا چاہیے کیونکہ ایک سے زائد مواقع پر اس کا امتحان لیا جاتا ہے ۔

میں امید کرتا ہوں کہ سعودی حکومت مین مقیم پاکستانی سعودی حکومت کی کسی پالیسی پر انگشت نمائی کی کوشش نہ کریں کیونکہ سعودی حکومت کی کسی بھی پالیسی پر تنقید کرنا جرم ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں داخلی سلامتی کے حوالے سے قائم پولیس “مباہت” اٹھا کر لے جائے۔ واضح رہے کہ سعودی محکمہ ڈاک کے اہلکار ملک میں آنے والے خطوط کو باقاعدہ کھول کر پڑھنے میں آزاد ہیں اور وہاں پر مخبروں کا نیٹ ورک خاصا مضبوط ہے۔

عر ب معاشرے میں خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک خاصا نامناسب اور توہین آمیز ہے۔ وہ غیر سعودی باشندوں سے حکومت کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتیں اور یہ ” سہولت” بھی صرف اسی صورت میں فراہم کی جا سکتی ہے جب مرد کا تعلق کسی عرب ریاست سے ہو۔ خواتین غیر مسلموں سے شادی نہیں کر سکتیں۔ جبکہ مردوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں وہ مسیحی یا یہودی خواتین کو بیاہ سکتے ہیں۔ اسلامی قوانین خواتین پر تشدد کی ممانعت کرتے ہیں جبکہ عرب معاشرے میں ان پر تشدد کے واقعات عام ہیں۔ ہسپتالوں میں ایسی کئی خواتین مشاہدے میں آتی ہیں جنہیں گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہوتا ہے ۔ خواتین اپنے خاوند یا والدین کی اجازت کے بغیر بیرون ملک نہیں جا سکتیں۔ انہیں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں اور حکم یہ ہے کہ وہ دوران سفر اگلی نشست پر نہ بیٹھیں اور یہ کہ گاڑی چلانے والا ان کا باپ، خاوند یا بھائی ہو۔ سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی گروپ سرگرم عمل نہیں کیونکہ وہاں کے قوانین اس امر کی اجازت نہیں دیتے۔ خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے صرف اسی صورت بیرون ممالک جا سکتی ہیں جب ان کا خاوند یا قریبی عزیز ہمراہ ہو۔ خواتین کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تو ہے مگر انہیں صحافت، انجینئرنگ اور تعمیرات جیسے مضامین پڑھنے کی اجازت نہیں۔ خواتین اپنے خاوند یا باپ کی اجازت سے شناختی کارڈ حاصل کر سکتی ہے۔ اور اس پر بازار جانے کے لئے سیاہ عبا یا اوڑھنے کی پابندی ہے۔ خاتون کا سر اور بال اس عبایا میں چھپے ہونے چاہئیں۔

11ستمبر کے واقعات میں ملوث افراد کا سعودی شہری ثابت ہونے کے بعد سعودی عرب پر اپنے معاشرے میں وسعت نظری اور اصلاحات کے لئے دباﺅ بڑھ رہا ہے۔ اس عمل میں کتنا وقت صرف ہو گا اور اس عمل کے سعودی فرمانروا کے خانوادے پر کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اس دور کا ایسا سوال ہے جسے ابھی تک جواب طلب سمجھنا چاہیے۔

(مارچ 2002)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).